ہنسی معصوم سی بچوں کی کاپی میں عبارت سی
Poet: بشیر بدر By: اشھد, Quettaہنسی معصوم سی، بچوں کی کاپی میں عبارت سی
ہرن کی پیٹھ پر بیٹھے پرندے کی شرارت سی
وہ جیسے سردیوں میں گرم کپڑے دے فقیروں کو
لبوں پہ مسکراہٹ تھی مگر کیسی حقارت سی
اداسی پت جھڑوں کی شام اوڑھے راستہ تکتی
پہاڑی پر ہزاروں سال کی کوئی عمارت سی
سجائے بازوؤں پر باز، وہ میداں میں تنہا تھا
چمکتی تھی یہ بستی دھوپ میں تاراج و غارت سی
مری آنکھوں مرے ہونٹوں پہ یہ کیسی تمازت ہے
کبوتر کے پروں کی ریشمی اجلی حرارت سی
کھلا دے پھول میرے باغ میں پیغمبروں جیسا
رقم ہو جس کی پیشانی پہ اک آیت بشارت سی
More Bashir Badr Poetry
چائے پر شاعری چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی
سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی
دائرے اندھیروں کے روشنی کے پوروں نے
کوٹ کے بٹن کھولے ٹائی کی گرہ کھولی
شیشے کی سلائی میں کالے بھوت کا چڑھنا
بام کاٹھ کا گھوڑا نیم کانچ کی گولی
برف میں دبا مکھن موت ریل اور رکشا
زندگی خوشی رکشا ریل موٹریں ڈولی
اک کتاب چاند اور پیڑ سب کے کالے کالر پر
ذہن ٹیپ کی گردش منہ میں طوطوں کی بولی
وہ نہیں ملی ہم کو ہک بٹن سرکتی جین
زپ کے دانت کھلتے ہی آنکھ سے گری چولی
سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی
دائرے اندھیروں کے روشنی کے پوروں نے
کوٹ کے بٹن کھولے ٹائی کی گرہ کھولی
شیشے کی سلائی میں کالے بھوت کا چڑھنا
بام کاٹھ کا گھوڑا نیم کانچ کی گولی
برف میں دبا مکھن موت ریل اور رکشا
زندگی خوشی رکشا ریل موٹریں ڈولی
اک کتاب چاند اور پیڑ سب کے کالے کالر پر
ذہن ٹیپ کی گردش منہ میں طوطوں کی بولی
وہ نہیں ملی ہم کو ہک بٹن سرکتی جین
زپ کے دانت کھلتے ہی آنکھ سے گری چولی
راحیل
ہنسی معصوم سی بچوں کی کاپی میں عبارت سی ہنسی معصوم سی، بچوں کی کاپی میں عبارت سی
ہرن کی پیٹھ پر بیٹھے پرندے کی شرارت سی
وہ جیسے سردیوں میں گرم کپڑے دے فقیروں کو
لبوں پہ مسکراہٹ تھی مگر کیسی حقارت سی
اداسی پت جھڑوں کی شام اوڑھے راستہ تکتی
پہاڑی پر ہزاروں سال کی کوئی عمارت سی
سجائے بازوؤں پر باز، وہ میداں میں تنہا تھا
چمکتی تھی یہ بستی دھوپ میں تاراج و غارت سی
مری آنکھوں مرے ہونٹوں پہ یہ کیسی تمازت ہے
کبوتر کے پروں کی ریشمی اجلی حرارت سی
کھلا دے پھول میرے باغ میں پیغمبروں جیسا
رقم ہو جس کی پیشانی پہ اک آیت بشارت سی
ہرن کی پیٹھ پر بیٹھے پرندے کی شرارت سی
وہ جیسے سردیوں میں گرم کپڑے دے فقیروں کو
لبوں پہ مسکراہٹ تھی مگر کیسی حقارت سی
اداسی پت جھڑوں کی شام اوڑھے راستہ تکتی
پہاڑی پر ہزاروں سال کی کوئی عمارت سی
سجائے بازوؤں پر باز، وہ میداں میں تنہا تھا
چمکتی تھی یہ بستی دھوپ میں تاراج و غارت سی
مری آنکھوں مرے ہونٹوں پہ یہ کیسی تمازت ہے
کبوتر کے پروں کی ریشمی اجلی حرارت سی
کھلا دے پھول میرے باغ میں پیغمبروں جیسا
رقم ہو جس کی پیشانی پہ اک آیت بشارت سی
اشھد
یہ زرد پتوں کی بارش مرا زوال نہیں یہ زرد پتوں کی بارش مرا زوال نہیں
مرے بدن پہ کسی دوسرے کی شال نہیں
اداس ہو گئی ایک فاختہ چہکتی ہوئی
کسی نے قتل کیا ہے یہ انتقال نہیں
تمام عمر غریبی میں با وقار رہے
ہمارے عہد میں ایسی کوئی مثال نہیں
وہ لا شریک ہے اس کا کوئی شریک کہاں
وہ بے مثال ہے اس کی کوئی مثال نہیں
میں آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہوں
کہاں ملی تھی یہ دنیا مجھے خیال نہیں
وہ شخص جس کو دل و جاں سے بڑھ کے چاہا تھا
بچھڑ گیا تو بظاہر کوئی ملال نہیں
مرے بدن پہ کسی دوسرے کی شال نہیں
اداس ہو گئی ایک فاختہ چہکتی ہوئی
کسی نے قتل کیا ہے یہ انتقال نہیں
تمام عمر غریبی میں با وقار رہے
ہمارے عہد میں ایسی کوئی مثال نہیں
وہ لا شریک ہے اس کا کوئی شریک کہاں
وہ بے مثال ہے اس کی کوئی مثال نہیں
میں آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہوں
کہاں ملی تھی یہ دنیا مجھے خیال نہیں
وہ شخص جس کو دل و جاں سے بڑھ کے چاہا تھا
بچھڑ گیا تو بظاہر کوئی ملال نہیں
ساجد ہمید
شام آنکھوں میں آنکھ پانی میں شام آنکھوں میں آنکھ پانی میں
اور پانی سرائے فانی میں
جھلملاتے ہیں کشتیوں میں دیے
پل کھڑے سو رہے ہیں پانی میں
خاک ہو جائے گی زمین اک دن
آسمانوں کی آسمانی میں
وہ ہوا ہے اسے کہاں ڈھونڈوں
آگ میں خاک میں کہ پانی میں
آ پہاڑوں کی طرح سامنے آ
ان دنوں میں بھی ہوں روانی میں
اور پانی سرائے فانی میں
جھلملاتے ہیں کشتیوں میں دیے
پل کھڑے سو رہے ہیں پانی میں
خاک ہو جائے گی زمین اک دن
آسمانوں کی آسمانی میں
وہ ہوا ہے اسے کہاں ڈھونڈوں
آگ میں خاک میں کہ پانی میں
آ پہاڑوں کی طرح سامنے آ
ان دنوں میں بھی ہوں روانی میں
Hassan
صبح کا جھرنا ہمیشہ ہنسنے والی عورتیں صبح کا جھرنا ہمیشہ ہنسنے والی عورتیں
جھٹپٹے کی ندیاں خاموش گہری عورتیں
معتدل کر دیتی ہیں یہ سرد موسم کا مزاج
برف کے ٹیلوں پہ چڑھتی دھوپ جیسی عورتیں
سبز نارنجی سنہری کھٹی میٹھی لڑکیاں
بھاری جسموں والی ٹپکے آم جیسی عورتیں
سڑکوں بازاروں مکانوں دفتروں میں رات دن
لال نیلی سبز نیلی جلتی بجھتی عورتیں
شہر میں اک باغ ہے اور باغ میں تالاب ہے
تیرتی ہیں اس میں ساتوں رنگ والی عورتیں
سیکڑوں ایسی دکانیں ہیں جہاں مل جائیں گی
دھات کی پتھر کی شیشے کی ربڑ کی عورتیں
منجمد ہیں برف میں کچھ آگ کے پیکر ابھی
مقبروں کی چادریں ہیں پھول جیسی عورتیں
ان کے اندر پک رہا ہے وقت کا آتش فشاں
جن پہاڑوں کو ڈھکے ہیں برف جیسی عورتیں
آنسوؤں کی طرح تارے گر رہے ہیں عرش سے
رو رہی ہیں آسمانوں کی اکیلی عورتیں
غور سے سورج نکلتے وقت دیکھو آسماں
چومتی ہیں کس کا ماتھا اجلی لمبی عورتیں
سبز سونے کے پہاڑوں پر قطار اندر قطار
سر سے سر جوڑے کھڑی ہیں لمبی سیدھی عورتیں
واقعی دونوں بہت مظلوم ہیں نقاد اور
ماں کہے جانے کی حسرت میں سلگتی عورتیں
جھٹپٹے کی ندیاں خاموش گہری عورتیں
معتدل کر دیتی ہیں یہ سرد موسم کا مزاج
برف کے ٹیلوں پہ چڑھتی دھوپ جیسی عورتیں
سبز نارنجی سنہری کھٹی میٹھی لڑکیاں
بھاری جسموں والی ٹپکے آم جیسی عورتیں
سڑکوں بازاروں مکانوں دفتروں میں رات دن
لال نیلی سبز نیلی جلتی بجھتی عورتیں
شہر میں اک باغ ہے اور باغ میں تالاب ہے
تیرتی ہیں اس میں ساتوں رنگ والی عورتیں
سیکڑوں ایسی دکانیں ہیں جہاں مل جائیں گی
دھات کی پتھر کی شیشے کی ربڑ کی عورتیں
منجمد ہیں برف میں کچھ آگ کے پیکر ابھی
مقبروں کی چادریں ہیں پھول جیسی عورتیں
ان کے اندر پک رہا ہے وقت کا آتش فشاں
جن پہاڑوں کو ڈھکے ہیں برف جیسی عورتیں
آنسوؤں کی طرح تارے گر رہے ہیں عرش سے
رو رہی ہیں آسمانوں کی اکیلی عورتیں
غور سے سورج نکلتے وقت دیکھو آسماں
چومتی ہیں کس کا ماتھا اجلی لمبی عورتیں
سبز سونے کے پہاڑوں پر قطار اندر قطار
سر سے سر جوڑے کھڑی ہیں لمبی سیدھی عورتیں
واقعی دونوں بہت مظلوم ہیں نقاد اور
ماں کہے جانے کی حسرت میں سلگتی عورتیں
Junaid
مری زباں پہ نئے ذائقوں کے پھل لکھ دے مری زباں پہ نئے ذائقوں کے پھل لکھ دے
مرے خدا تو مرے نام اک غزل لکھ دے
میں چاہتا ہوں یہ دنیا وہ چاہتا ہے مجھے
یہ مسئلہ بڑا نازک ہے کوئی حل لکھ دے
یہ آج جس کا ہے اس نام کو مبارک ہو
مری جبیں پہ مرے آنسوؤں سے کل لکھ دے
ہوا کی طرح میں بیتاب ہوں کہ شاخ گلاب
جو ریگزاروں پہ تالاب کے کنول لکھ دے
میں ایک لمحے میں دنیا سمیٹ سکتا ہوں
تو کب ملے گا اکیلے میں ایک پل لکھ دے
مرے خدا تو مرے نام اک غزل لکھ دے
میں چاہتا ہوں یہ دنیا وہ چاہتا ہے مجھے
یہ مسئلہ بڑا نازک ہے کوئی حل لکھ دے
یہ آج جس کا ہے اس نام کو مبارک ہو
مری جبیں پہ مرے آنسوؤں سے کل لکھ دے
ہوا کی طرح میں بیتاب ہوں کہ شاخ گلاب
جو ریگزاروں پہ تالاب کے کنول لکھ دے
میں ایک لمحے میں دنیا سمیٹ سکتا ہوں
تو کب ملے گا اکیلے میں ایک پل لکھ دے
Laiba






