ہو نہیں سکتے ختم بیگم کے کام
بیِت جائے گی یوں ہی عمرِ تمام
تازہ سبزی سستی دالیں روکھا گوشت
بعد آفس کے گزر جاتی اس میں اپنی شام
آج بکرے کی کلیجی ڈھونڈ کر لانی ہے پھر
گائے کی لا کے لگا دونگا کسی بکرے کا نام
سٹپٹا سا جاتا ہوں سامان دیتے وقت اسے
گھور کر جب پوچھتی ہے سب کے دام
خواب میں بھی آتی ہے ظالم نظر
خوفِ میں بیگم کہ آیا وہ مقام
میکے وہ جائے تو دے کہ دو سو کام
آتے ہی فرماتی ہے کہ ہوگیا عیش و آرام
سوچتا ہوں کس کا دل میں نے دکھایا اس قدر
جو مجھے قدرت نے بخشا یہ انعام
چُلو بھر پانی میں کب کا ڈوب کر مر جاتا میں
گر نہ ہوتی خودکشی کمبخت حرام