ہو چکا وعظ کا اثر واعظ
Poet: رافعے By: Rafay, Sargodhaہو چکا وعظ کا اثر واعظ
اب تو رندوں سے در گزر واعظ
صبح دم ہم سے تو نہ کر تکرار
ہے ہمیں پہلے درد سر واعظ
بزم رنداں میں ہو اگر شامل
پھر تجھے کچھ نہیں خطر واعظ
وعظ اپنا یہ بھول جائے تو
آوے گر یار سیم بر واعظ
ہے یہ مرغ سحر سے بھی فائق
صبح اٹھتا ہے پیشتر واعظ
مسجد و کعبہ میں تو پھرتا ہے
کوئے جاناں سے بے خبر واعظ
شور و غل بند تو نہیں کرتا
ہے تو انساں کہ کوئی خر واعظ
ظاہری وعظ سے ہے کیا حاصل
اپنے باطن کو صاف کر واعظ
بندۂ کوئے یار ہے بہرامؔ
تیری مسجد سے کیا خبر واعظ
More Bahram ji Poetry
بحث کیوں ہے کافر و دیں دار کی بحث کیوں ہے کافر و دیں دار کی
سب ہے قدرت داور دوار کی
ہم صف ''قالوا بلیٰ'' میں کیا نہ تھے
کچھ نئی خواہش نہیں دیدار کی
ڈھونڈھ کر دل میں نکالا تجھ کو یار
تو نے اب محنت مری بیکار کی
شکل گل میں جلوہ کرتے ہو کبھی
گاہ صورت بلبل گل زار کی
آپ آتے ہو کبھی سبحہ بکف
کرتے ہو خواہش کبھی زنار کی
لن ترانی آپ کی موسیٰ سے تھی
ہر جگہ حاجت نہیں انکار کی
خاص ہیں مقتول شمشیر جفا
کچھ تو لذت ہے تری تلوار کی
دیر و کعبہ میں کلیسا میں پھرے
ہر جگہ ہم نے تلاش یار کی
سب کی ہے تقدیر تیرے ہاتھ میں
کیا شکایت مسلم و کفار کی
ہم میں جوہر تھے عبادت خاص کے
کر دیا انساں یہ مٹی خوار کی
مہر و مہ کو عمر بھر دیکھا کئے
تھی تمنا روئے پر انوار کی
اور اے بہرامؔ اک لکھو غزل
آپ کو قلت نہیں اشعار کی
سب ہے قدرت داور دوار کی
ہم صف ''قالوا بلیٰ'' میں کیا نہ تھے
کچھ نئی خواہش نہیں دیدار کی
ڈھونڈھ کر دل میں نکالا تجھ کو یار
تو نے اب محنت مری بیکار کی
شکل گل میں جلوہ کرتے ہو کبھی
گاہ صورت بلبل گل زار کی
آپ آتے ہو کبھی سبحہ بکف
کرتے ہو خواہش کبھی زنار کی
لن ترانی آپ کی موسیٰ سے تھی
ہر جگہ حاجت نہیں انکار کی
خاص ہیں مقتول شمشیر جفا
کچھ تو لذت ہے تری تلوار کی
دیر و کعبہ میں کلیسا میں پھرے
ہر جگہ ہم نے تلاش یار کی
سب کی ہے تقدیر تیرے ہاتھ میں
کیا شکایت مسلم و کفار کی
ہم میں جوہر تھے عبادت خاص کے
کر دیا انساں یہ مٹی خوار کی
مہر و مہ کو عمر بھر دیکھا کئے
تھی تمنا روئے پر انوار کی
اور اے بہرامؔ اک لکھو غزل
آپ کو قلت نہیں اشعار کی
Shahid
ہو چکا وعظ کا اثر واعظ ہو چکا وعظ کا اثر واعظ
اب تو رندوں سے در گزر واعظ
صبح دم ہم سے تو نہ کر تکرار
ہے ہمیں پہلے درد سر واعظ
بزم رنداں میں ہو اگر شامل
پھر تجھے کچھ نہیں خطر واعظ
وعظ اپنا یہ بھول جائے تو
آوے گر یار سیم بر واعظ
ہے یہ مرغ سحر سے بھی فائق
صبح اٹھتا ہے پیشتر واعظ
مسجد و کعبہ میں تو پھرتا ہے
کوئے جاناں سے بے خبر واعظ
شور و غل بند تو نہیں کرتا
ہے تو انساں کہ کوئی خر واعظ
ظاہری وعظ سے ہے کیا حاصل
اپنے باطن کو صاف کر واعظ
بندۂ کوئے یار ہے بہرامؔ
تیری مسجد سے کیا خبر واعظ
اب تو رندوں سے در گزر واعظ
صبح دم ہم سے تو نہ کر تکرار
ہے ہمیں پہلے درد سر واعظ
بزم رنداں میں ہو اگر شامل
پھر تجھے کچھ نہیں خطر واعظ
وعظ اپنا یہ بھول جائے تو
آوے گر یار سیم بر واعظ
ہے یہ مرغ سحر سے بھی فائق
صبح اٹھتا ہے پیشتر واعظ
مسجد و کعبہ میں تو پھرتا ہے
کوئے جاناں سے بے خبر واعظ
شور و غل بند تو نہیں کرتا
ہے تو انساں کہ کوئی خر واعظ
ظاہری وعظ سے ہے کیا حاصل
اپنے باطن کو صاف کر واعظ
بندۂ کوئے یار ہے بہرامؔ
تیری مسجد سے کیا خبر واعظ
Rafay
رکھا سر پر جو آیا یار کا خط رکھا سر پر جو آیا یار کا خط
گیا سب درد سر کیا تھا دوا خط
دیا خط اور ہوں قاصد کے پیچھے
ہوا تاثیر میں کیا کہربا خط
وہیں قاصد کے منہ پر پھینک مارا
دیا قاصد نے جب جا کر مرا خط
ہے لازم حال خیریت کا لکھنا
کبھی تو بھیج او نا آشنا خط
رہا ممنون کاغذ ساز کا میں
سنا دے گا اسے سب ماجرا خط
پتا ملتا نہیں اس بے نشاں کا
لیے پھرتا ہے قاصد جا بجا خط
رہی حسرت یہ ساری عمر بہرامؔ
نہ مجھ کو یار نے ہرگز لکھا خط
گیا سب درد سر کیا تھا دوا خط
دیا خط اور ہوں قاصد کے پیچھے
ہوا تاثیر میں کیا کہربا خط
وہیں قاصد کے منہ پر پھینک مارا
دیا قاصد نے جب جا کر مرا خط
ہے لازم حال خیریت کا لکھنا
کبھی تو بھیج او نا آشنا خط
رہا ممنون کاغذ ساز کا میں
سنا دے گا اسے سب ماجرا خط
پتا ملتا نہیں اس بے نشاں کا
لیے پھرتا ہے قاصد جا بجا خط
رہی حسرت یہ ساری عمر بہرامؔ
نہ مجھ کو یار نے ہرگز لکھا خط
Faiz
دنیا میں عبادت کو تری آئے ہوئے ہیں دنیا میں عبادت کو تری آئے ہوئے ہیں
پر حسن بتاں دیکھ کے گھبرائے ہوئے ہیں
افسوس عبادت نہ تری ہو سکی ہم سے
گردن نہیں اٹھتی ہے کہ شرمائے ہوئے ہیں
الزام نہیں طور جو سرمہ ہوا جل کر
موسیٰ بھی تجلی سے تو شرمائے ہوئے ہیں
میں برہمن و شیخ کی تکرار سے سمجھا
پایا نہیں اس یار کو جھنجھلائے ہوئے ہیں
کعبے سے نہ رغبت ہمیں نے دیر کی خواہش
ہم خانۂ دل میں جو اسے پائے ہوئے ہیں
ہے کون سی جا ہو جو ترے جلوے سے خالی
مضمون ہم اب دل میں یہی لائے ہوئے ہیں
ذلت کے خریدار ہوئے حرص کے بندے
حاجت کے لئے ہاتھ جو پھیلائے ہوئے ہیں
جس قوم میں دیکھا تو تجسس ترا پایا
معبد ترے ہر قوم میں ٹھہرائے ہوئے ہیں
بہرامؔ غزل اور بھی اک ان کو سنا دے
مشتاق تری بزم میں سب آئے ہوئے ہیں
پر حسن بتاں دیکھ کے گھبرائے ہوئے ہیں
افسوس عبادت نہ تری ہو سکی ہم سے
گردن نہیں اٹھتی ہے کہ شرمائے ہوئے ہیں
الزام نہیں طور جو سرمہ ہوا جل کر
موسیٰ بھی تجلی سے تو شرمائے ہوئے ہیں
میں برہمن و شیخ کی تکرار سے سمجھا
پایا نہیں اس یار کو جھنجھلائے ہوئے ہیں
کعبے سے نہ رغبت ہمیں نے دیر کی خواہش
ہم خانۂ دل میں جو اسے پائے ہوئے ہیں
ہے کون سی جا ہو جو ترے جلوے سے خالی
مضمون ہم اب دل میں یہی لائے ہوئے ہیں
ذلت کے خریدار ہوئے حرص کے بندے
حاجت کے لئے ہاتھ جو پھیلائے ہوئے ہیں
جس قوم میں دیکھا تو تجسس ترا پایا
معبد ترے ہر قوم میں ٹھہرائے ہوئے ہیں
بہرامؔ غزل اور بھی اک ان کو سنا دے
مشتاق تری بزم میں سب آئے ہوئے ہیں
Kamil






