ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
Poet: مرزا غالب By: Zeeshan, Lahoreہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا 
 آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا 
 
 تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ 
 اس میں کچھ شائبۂ خوبی تقدیر بھی تھا 
 
 تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں 
 کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا 
 
 قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد 
 ہاں کچھ اک رنج گراں باری زنجیر بھی تھا 
 
 بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا 
 بات کرتے کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا 
 
 یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی 
 گر بگڑ بیٹھے تو میں لائق تعزیر بھی تھا 
 
 دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا 
 نالہ کرتا تھا ولے طالب تاثیر بھی تھا 
 
 پیشہ میں عیب نہیں رکھیے نہ فرہاد کو نام 
 ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا 
 
 ہم تھے مرنے کو کھڑے پاس نہ آیا نہ سہی 
 آخر اس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا 
 
 پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق 
 آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا 
 
 ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ 
 کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا






