ہوئی سرکار دوعالم کی جب جلوہ گری
مٹ گئی دنیا سے پھر تاریکیاں کیسے سبھی
غرق پورے ہو چکے تھے مشرکانہ رسموں میں
روح جو توحید کی ان کے دلوں میں پھونک دی
حیثیت نسواں کچلتی چیختی تھی منتظر
لاڈلے آقا نے لوٹائی کھوئی پاگیزگی
قتل کے در پہ بھی رہتے تھے سدا جو آپ کے
جاں نچھاور کر فدائی بن گئے سارے وہی
قلب ایماں سے منور ہو چلے تو پا سکے
مستعد پھر خود کو رکھيں ہمیشہ ہر گھڑی
لڑکیوں کو زندہ ہی در گور کرنا رسم تھی
حال بدلے تب برائی چھوڑ بیٹھے دائمی
جیتنا ناصر دلوں کو کب سہل رہتا مگر
پیار کے برتاؤ سے کٹر کی بھی سختی ٹوٹی