ہوئی شام آنکھوں میں پس پھیر گیا ہے وہ
میرا جانے صحرا کا کہاں مسافر گیا ہے وہ
میں جانتا ہوں وقت بدل دے گا مجھے
پر ہائے رے کیا ظلم کہہ آخر گیا ہے وہ
ہنسی خوشی کاش گلستاں سے جدائی لیے لیتا
خزائیں کے ڈر سے جانے کدھر گیا ہے وہ
خاموش فصا شجر بھی اداس اداس ہے
بن بتائے کہاں آخر طائر گیا ہے وہ
اس کی مثل تو اک سوکھے پتے کی ہے دوست
ہوا جہاں پے رخ ہوا کا ادھر گیا ہے وہ
خدا رحم بڑی علت میں پڑ گیا ہے قلزم
وہ تو تھا پہلے ہی نکما اب بن اور شاعر گیا ہے وہ