ہوا بھی تیز ہے اور رات کا سفر بھی ہے
بجھی بجھی سی مگر شمع راہبر بھی ہے
میں کوئی حرف شکایت زبان پہ کیا لاؤں
کہ قافلے میں وہی شخص معتبر بھی ہے
جو در بہ در ہیں انہی کا ملال ہے ورنہ
میں آشانہ بھی رکھتی ہوں، میرا گھر بھی ہے
ہمارے رنج بہت مشترک سے لگتے ہیں
جو دکھ ہے اسکا، وہی میرا درد سر بھی ہے
ہم ہی ہیں جن کو فضا میں گھٹن کا ہے احساس
ہم ہی ہیں جن کو بہت رنج بال وپر بھی ہے
میں جس کے غم میں سلگتی ہوں روز و شب اے صدف
کمال یہ ہے وہی میرا چارہ گر بھی ہے