عجب خونچکاں کربلا کا سماں تھا
تھے سب تشنہ لب اور دریا رواں تھا
مصیبت کے ماروں کا اک کارواں تھا
ہر اک غم زدہ بوڑھا بچہ جواں تھا
تھا اک عالم حشر ہر سمت گویا
تھا بد حال ہر شخص جو بھی جہاں تھا
سسکتے تھے بچے بلکتی تھیں مائیں
جو انسان بھی پیاس سے ناتواں تھا
ستم آج بھی اس کا ورد زباں ہے
یزید لعیں جو وہاں حکمراں تھا
تھا خیموں میں کہرام جو جل رہے تھے
ہر ایک سمت جیسے دھواں ہی دھواں تھا
ہوا کربلا میں جو قربان برقیؔ
حسین ابن حیدر کا وہ خانداں تھا