دینے والے رکھنا تو اپنی عطا بار بار
برستی ہے جیسے بارش کی پھوار
کیوں تکتا رہتا ہوں آسماں کی جانب
مری بے کلی کے پیچھے ہے حسرتِ دیدار
آسماں سے جڑا تو ہوں درخشاں
زمیں پہ رہا گر تو رہوں گا داغدار
نہ مانگ رزق تو بنجر زمین سے
پھیلا کر کشکول ِدل ہو جا گلِ گلزار
اسی سوال سے قائم ہے تعلق عرفان
مری جستجو سے رہتاہے وہ آشکار