ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
Poet: Ada Jafri By: Adeena, khi
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے
حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
لمحات مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشت جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
More Ada Jafri Poetry
رسم وآداب جدا، عفتِ پندار جُدا رسم وآداب جدا، عفتِ پندار جُدا
ہر قدم پر ہے مرے سامنے دیوار جدا
کنجِ مژگاں سے ستاروں کو رہائی بھی نہیں
اور اُجالوں کو بکھر جانے پہ اصرار جدا
اب کے موسم سبھی کھیتوں میں شرربوئے گئے
اور ہوائیں ملیں شعلوں کی طرفدار جُدا
کوئی پہچان کسی خواب کی رہنے دیتے
آئنوں سے ہوتے کیوں آئینہ بردار جدا
گرنے والوں کو بہانوں کی ضرورت ہی نہ تھی
اور یہاں عذر بھی ملتا رہا ہر بار جدا
میری دنیا میں مجھے تو بھی تو آکر دیکھے
خوف کا بوجھ الگ درد کا بازار جدا
خواب کیا دیکھتی ہو خود ہی کسی خواب سی تھی
رنگ آنسو کا جدا، رنگ گل و خار جدا
ہر قدم پر ہے مرے سامنے دیوار جدا
کنجِ مژگاں سے ستاروں کو رہائی بھی نہیں
اور اُجالوں کو بکھر جانے پہ اصرار جدا
اب کے موسم سبھی کھیتوں میں شرربوئے گئے
اور ہوائیں ملیں شعلوں کی طرفدار جُدا
کوئی پہچان کسی خواب کی رہنے دیتے
آئنوں سے ہوتے کیوں آئینہ بردار جدا
گرنے والوں کو بہانوں کی ضرورت ہی نہ تھی
اور یہاں عذر بھی ملتا رہا ہر بار جدا
میری دنیا میں مجھے تو بھی تو آکر دیکھے
خوف کا بوجھ الگ درد کا بازار جدا
خواب کیا دیکھتی ہو خود ہی کسی خواب سی تھی
رنگ آنسو کا جدا، رنگ گل و خار جدا
نعمان علی
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے
حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
لمحات مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشت جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے
حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
لمحات مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشت جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
Adeena
گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید
راہ میں سنگ وفا تھا شاید
اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کھلا تھا شاید
جس کی باتوں کے فسانے لکھے
اس نے تو کچھ نہ کہا تھا شاید
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہوا تھا شاید
تجھ کو بھولے تو دعا تک بھولے
اور وہی وقت دعا تھا شاید
خون دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید
دل کا جو رنگ ہے یہ رنگ اداؔ
پہلے آنکھوں میں رچا تھا شاید
راہ میں سنگ وفا تھا شاید
اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کھلا تھا شاید
جس کی باتوں کے فسانے لکھے
اس نے تو کچھ نہ کہا تھا شاید
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہوا تھا شاید
تجھ کو بھولے تو دعا تک بھولے
اور وہی وقت دعا تھا شاید
خون دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید
دل کا جو رنگ ہے یہ رنگ اداؔ
پہلے آنکھوں میں رچا تھا شاید
dilawar
جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا
یہ سکوں کا دور شدید ہے کوئی بے قرار کہاں رہا
جو دعا کو ہاتھ اٹھائے بھی تو مراد یاد نہ آ سکی
کسی کارواں کا جو ذکر تھا وہ پس غبار کہاں رہا
یہ طلوع روز ملال ہے سو گلہ بھی کس سے کریں گے ہم
کوئی دل ربا کوئی دل شکن کوئی دل فگار کہاں رہا
کوئی بات خواب و خیال کی جو کرو تو وقت کٹے گا اب
ہمیں موسموں کے مزاج پر کوئی اعتبار کہاں رہا
ہمیں کو بہ کو جو لیے پھری کسی نقش پا کی تلاش تھی
کوئی آفتاب تھا ضو فگن سر رہ گزار کہاں رہا
مگر ایک دھن تو لگی رہی نہ یہ دل دکھا نہ گلہ ہوا
کہ نگہ کو رنگ بہار پر کوئی اختیار کہاں رہا
سر دشت ہی رہا تشنہ لب جسے زندگی کی تلاش تھی
جسے زندگی کی تلاش تھی لب جوئبار کہاں رہا
یہ سکوں کا دور شدید ہے کوئی بے قرار کہاں رہا
جو دعا کو ہاتھ اٹھائے بھی تو مراد یاد نہ آ سکی
کسی کارواں کا جو ذکر تھا وہ پس غبار کہاں رہا
یہ طلوع روز ملال ہے سو گلہ بھی کس سے کریں گے ہم
کوئی دل ربا کوئی دل شکن کوئی دل فگار کہاں رہا
کوئی بات خواب و خیال کی جو کرو تو وقت کٹے گا اب
ہمیں موسموں کے مزاج پر کوئی اعتبار کہاں رہا
ہمیں کو بہ کو جو لیے پھری کسی نقش پا کی تلاش تھی
کوئی آفتاب تھا ضو فگن سر رہ گزار کہاں رہا
مگر ایک دھن تو لگی رہی نہ یہ دل دکھا نہ گلہ ہوا
کہ نگہ کو رنگ بہار پر کوئی اختیار کہاں رہا
سر دشت ہی رہا تشنہ لب جسے زندگی کی تلاش تھی
جسے زندگی کی تلاش تھی لب جوئبار کہاں رہا
hameed
جب دل کی رہ گزر پہ ترا نقش پا نہ تھا جب دل کی رہ گزر پہ ترا نقش پا نہ تھا
جینے کی آرزو تھی مگر حوصلہ نہ تھا
آگے حریم غم سے کوئی راستہ نہ تھا
اچھا ہوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا
دامان چاک چاک گلوں کو بہانہ تھا
ورنہ نگاہ و دل میں کوئی فاصلہ نہ تھا
کچھ لوگ شرمسار خدا جانے کیوں ہوئے
ان سے تو روح عصر ہمیں کچھ گلہ نہ تھا
جلتے رہے خیال برستی رہی گھٹا
ہاں ناز آگہی تجھے کیا کچھ روا نہ تھا
سنسان دوپہر ہے بڑا جی اداس ہے
کہنے کو ساتھ ساتھ ہمارے زمانہ تھا
ہر آرزو کا نام نہیں آبروئے جاں
ہر تشنہ لب جمال رخ کربلا نہ تھا
آندھی میں برگ گل کی زباں سے اداؔ ہوا
وہ راز جو کسی سے ابھی تک کہا نہ تھا
جینے کی آرزو تھی مگر حوصلہ نہ تھا
آگے حریم غم سے کوئی راستہ نہ تھا
اچھا ہوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا
دامان چاک چاک گلوں کو بہانہ تھا
ورنہ نگاہ و دل میں کوئی فاصلہ نہ تھا
کچھ لوگ شرمسار خدا جانے کیوں ہوئے
ان سے تو روح عصر ہمیں کچھ گلہ نہ تھا
جلتے رہے خیال برستی رہی گھٹا
ہاں ناز آگہی تجھے کیا کچھ روا نہ تھا
سنسان دوپہر ہے بڑا جی اداس ہے
کہنے کو ساتھ ساتھ ہمارے زمانہ تھا
ہر آرزو کا نام نہیں آبروئے جاں
ہر تشنہ لب جمال رخ کربلا نہ تھا
آندھی میں برگ گل کی زباں سے اداؔ ہوا
وہ راز جو کسی سے ابھی تک کہا نہ تھا
sana
اچانک دل ربا موسم کا دل آزار ہو جانا اچانک دل ربا موسم کا دل آزار ہو جانا
دعا آساں نہیں رہنا سخن دشوار ہو جانا
تمہیں دیکھیں نگاہیں اور تم کو ہی نہیں دیکھیں
محبت کے سبھی رشتوں کا یوں نادار ہو جانا
ابھی تو بے نیازی میں تخاطب کی سی خوشبو تھی
ہمیں اچھا لگا تھا درد کا دل دار ہو جانا
اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو
ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گل بار ہو جانا
ابھی کچھ ان کہے الفاظ بھی ہیں کنج مژگاں میں
اگر تم اس طرف آؤ صبا رفتار ہو جانا
ہوا تو ہم سفر ٹھہری سمجھ میں کس طرح آئے
ہواؤں کا ہماری راہ میں دیوار ہو جانا
ابھی تو سلسلہ اپنا زمیں سے آسماں تک تھا
ابھی دیکھا تھا راتوں کا سحر آثار ہو جانا
ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا
دعا آساں نہیں رہنا سخن دشوار ہو جانا
تمہیں دیکھیں نگاہیں اور تم کو ہی نہیں دیکھیں
محبت کے سبھی رشتوں کا یوں نادار ہو جانا
ابھی تو بے نیازی میں تخاطب کی سی خوشبو تھی
ہمیں اچھا لگا تھا درد کا دل دار ہو جانا
اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو
ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گل بار ہو جانا
ابھی کچھ ان کہے الفاظ بھی ہیں کنج مژگاں میں
اگر تم اس طرف آؤ صبا رفتار ہو جانا
ہوا تو ہم سفر ٹھہری سمجھ میں کس طرح آئے
ہواؤں کا ہماری راہ میں دیوار ہو جانا
ابھی تو سلسلہ اپنا زمیں سے آسماں تک تھا
ابھی دیکھا تھا راتوں کا سحر آثار ہو جانا
ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا
ghayoor






