ہوچکی دیرینہ اب وہ شمع و پروانے کی بات
اب تو دیتی ہے ضرر کانوں کو افسانے کی بات
چھوڑ افسانوں کو دے آجا حقیقت کی طرف
مردہ تیری ہے خودی، کیا یہ نہیں رونے کی بات ؟
کر کے ذکر غیر تو غیروں کے مانند ہوگیا
اپنے ہو کر بھی، تیری لگتی ہے بیگانے کی بات
کان اپنے کھول کر سن لے صدا یہ میر کی
غیر کی جانب کیا رخ ، ہے یہ پچتانے کی بات