ہے آرزو کہ سچ ہو وہ سپنا کہیں جسے
ایسا نہیں ہے کو ئ تمنا کہیں جسے
وہ نقش بے قرار کہ دنیا کہیں جسے
اب تک نہ مل سکا ہمیں بینا کہیں جسے
یوں تو ہزار چہرے مرے گرد ہیں جمع
کوئ نہیں ہے ایسا کہ اپنا کہیں جسے
جس کو خبر نہیں خود اپنے وجود کی
ہم سا بھی کیاکوئ ہےکہ تنہا کہیں جسے
خود کو نگاہ یاس کی زد سے بچایئے
قاتل ہے خردوہوش کی مینا کہیں جسے
یہ درد،رنج،کرب و الم ابتداء کے ہیں
ہے انتہائے عشق وہ مرنا کہیں جسے
کیوں دے رہی ہیں جھوٹی تسلی کہ یہ غزل
اتنا تو جی رہی ہے کہ جینا کہیں جسے