ہے کہیں بلے کہیں شیر کہیں تیر کا رکھوالا
ہاں مگر کوئی بھی نہیں اپنے ہی ضمیر کا رکھوالا
میرے غریبو کچھ توجو اپنے حالات پہ بھی
کوئی وڈیرے کا ہو کوئی ہو پیر کا رکھوالا
پھر سے تاج کی خواہش لیے کئ چور اور ڈاکو
اور اک ملاں بھی ہے کھیر کا رکھوالا
اور جس کا کوئی نہیں اس کا "کوئی بھی نہیں" ہے
اور ہر "زر"داری ہے ہر امیر کا رکھوالا
اور وہ کیا شیر کہ جو اپنی بھی حفاظت نہ کرے
کہ جیسے اندھا ہو کوئی شمشیر کا رکھوالا
پھر نہ کہنا کہ لٹے اور برباد ہوئے
ہوشمندی سے چنو اپنی تقدیر کا رکھوالا
اور جس سے کاشی نہیں اپنی بھی حفاظت ہوتی
وہی بن بیٹھتا ہے ملکی توقیر کا رکھوالا