دل میں یذید اپنے،ہونٹوں پے تیرا نعرہ
کعبے میں بت تھے جیسے ایسا ہے دل ہمارا
تیرے ترانے گائیں،تیرے ہی ہو ہو جائیں
ناسور جو یذیدی ان کو گلے لگائیں
ہم بھول میں پڑے ہیں دنیا ہے اپنی منزل
جنگل میں کھو گئے ہیں، دولت کے بیچ چنگل
ہم نے نماز چھوڑی ،ایمان بیچ ڈالا
رسوائی پاس آئی، حق کی زباں پے تالا
ہم دین کے ہیں باغی، دنیا کے ہم ہیں راہی
برباد ہو گئے ہیں،چاہیں مگر تباہی
مغرب کا ڈوبا سورج،مشرق ہے پیروی میں
آگے ہی آگے جائیں ہم موت کی گلی میں
طوفان اٹھ رہے ہیں، بحرِفساد میں یاں
آپس میں لڑ رہی ہے ملت سلامیاں ہاں
اندھیرا چھا گیا ہے چاروں طرف ہماری
چن چن کے شہر ڈھائے دشمن نے باری باری
نادار ہم بنے ہیں، بے کار ہم بنے ہیں
ظلمت نشاں بنے ہیں،عبرت نشاں بنے ہیں
باندھے ہیں ہاتھ پاؤں، پٹی نظر فکر پر
خاموش ہیں زبانیں، غیروں کی ہیں ڈگر پر
عریانی اور فحاشی اپنا بنے وطیرہ
عادت میں ڈھل گئے ہیں جو تھے گناہ کبیرہ
تبلیغ بھی بڑی ہے، تعلیم بھی بڑی ہے
جھولی عمل کی خالی، الجھی ہوئی گھڑی ہے
کوفہ بنی ہے دنیا، نہیں کارواں حسینی
بے چینی روح میں ہے، دل میں ہے بے یقینی
غفلت کی نیند چھائی، بھائی کو مارے بھائی
غازا میں خون سستا، عربوں میں کج کلاہی
عالِم نے عِلم بیچا،پیروں نے بھی فقیری
قاضی بے بیچ ڈالا جو عدل تھا ضروری
گھر، گھر میں ناچ گانے، دل دل میں ہے شیطانی
دنیا کے پیچھے دنیا، پھرتی ہے ہو دیوانی
دولت میں ہے قرینہ،ایمان قصہ ماضی
خواہش ہی مرگئی ہے، نہ شہید،نہ ہی غازی
لالچ کی ہے عبادت،خودغرضی کی قیادت
بے کار ہو گئی ہے دن رات کی ریاضت
ہم کو عطاہو غیرت،ایمان کی حرارت
ہم کو بھی سمجھ آئے شیطان کی شرارت
تقوے کی بھیک دے دو،شرم و حیا عطا ہو
دنیا کو چھوڑ کر دل ایمان پر فدا ہو