یاد بھی اس کی خواب کی سی ہے
ایک لڑکی حجاب کی سی ہے
چومتا ہوں ثواب جان کے میں
تو مقدس کتاب کی سی ہے
جو ملی ہے ثواب کی خاطر
زیست وہ بھی عذاب کی سی ہے
اس میں خوشبو رہی نہ رنگ رہا
اب وہ سوکھے گلاب کی سی ہے
ذکر تیرا عطاؔ کے شعر میں ہے
تو غزل پر شباب کی سی ہے