کیا پھینکوں نکال ان یادوں کے خزینے
دن لگیں چاہے لگیں اس میں مہینے
غم ہائے الفت سے کب تلک نبٹتا رہوں
کب آئیں گے جینے کے قرینے
تجورئ دل میں چکا چوند ہے کیونکہ
جا بجا رکھے ہیں ان یادوں کے نگینے
اٹھانے پہ گھونگٹ مرے یار حسن و عشق کا
رقیب خوش بخت کے چھوٹے ہونگے پسینے
ناصر کا وہ موسیقار آعلی نہ رہا اب
بجاتے ہیں خود ہی ساز دل کے سازینے