یوں تو ملنے کو سبھی احباب آگئے
خوشی تب ہوتی جو سنتے جناب آگئے
پھول ہو گئے احساس کمتری کا شکار
کاہے کو تم چمن میں بے نقاب آگئے
کبھی ہر روز ان کا دیدار ہوتا تھا
اب جو ہجر کے دن آئے بے حساب آگئے
ہم نے تو چاہا تھا تقدس انسانیت
ہم ہی انسان کے زیر عتاب آگئے
وہ میرے پاس بیٹھ گئے مسکراتے ہوئے
لگتا ہے دیکھنا میری آنکھوں کو خواب آگئے
لو سنو اشفاق اس کوچے میں جانے لگا
ہو نہ ہو دن اس کے بھی خراب آگئے