یوں تو ہر چھب وہ نرالی وہ فسوں ساز کہ بس
ہائے وہ ایک نگاہ غلط انداز کہ بس
دیکھنے والو ذرا رنگ کا پردہ تو ہٹاؤ
سینۂ گل پہ ہے زخموں کا وہ انداز کہ بس
دل کے داغوں کو چھپایا تو ابھر آئے اور
رازداری ہی نے یوں کھول دیئے راز کہ بس
ہم نے بخشی ہے زمانے کو نظر اور ہمیں
یوں زمانے نے کیا ہے نظر انداز کہ بس
رنج و غم عشق و جنوں درد و خلش سوز و فراق
ایسے ایسے ملے خاورؔ ہمیں دم ساز کہ بس