یوں توبے فیض ہوں سارے زمانے کے لیے
تم کبھی دکھ درد کہتے ، آزمانے کے لیے
باتیں کس لیے کرتے ہو میرے سامنے ؟ ایسی
جیسے تم آئے تھے میرا دل دُکھانے کے لیے
صرف باتوں سے نہ بہلاؤ مجھے ہر وقت تم
خونِ دل کا رنگ دو میرے فسانے کے لیے
کس لیے جانے کی جلدی ہے تمھیں اب اس قدر
گویا میرے پاس تم آئے تھے ، جانے کے لیے