یُوں کَٹی سزائے اُلفت کسی یاد کے قفَس میں
مَیں اُسے بُھلا نہ پایا جو مجھے بُھلا چُکا تھا
وہی گیت اُس نے گایا سرِ محفلِ رقیباں
جو کبھی سکوتِ شب میں وہ مجھے سُنا چکا تھا
مجھے قربتوں کا ڈر تھا، اُسے دُوریوں سے وحشت
مِرے دُور کرتے کرتے وہ قریب آ چُکا تھا
تھی عبَث تلاش ہر جا یُوں مُنیبِؔ خُوشنوا کی
دمِ صبح آنے والا سرِ شام جا چُکا تھا