یہ خاک جس پہ آج میرا ذوق جبیں ہے
اس خاک سے بڑھ کر کوئی پتھر نہ نگیں ہے
وہ آ رہا ہے مجھکو نظر گنبد خضری
پلکوں کو جھپکنا ابھی منظور نہیں ہے
تھی جسکے انتظار میں بےتاب الفتیں
دل بول اٹھا ہاں یہ وہی عرش بریں ہے
اسکی نہیں مثال کوئی کائنات میں
یہ ارض مدینہ ہے ۔ ستارہ نہ زمیں ہے
بیٹھا ہوں میں حضور کے قدموں کی دھول میں
اب مجھ سے بڑھ کے کون یہاں تخت نشیں ہے
ہر آرزو کی آرزو ہے انکی خاک پا
مدت سے ہر خیال مدینے کا مکیں ہے