یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
Poet: تہزیب حافی By: mumtaz, khi
یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے 
 میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے 
 
 میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا 
 مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے 
 
 بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا 
 تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے 
 
 بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا 
 بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے 
 
 میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر 
 یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے 
 
 رہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفر 
 میں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے
More Tahzeeb Hafi Poetry
موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زبیر







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 