یہ جو زندگی ہے اپنی یہ تو جیسے بلبلا ہو
جو پلک جھپکتے نکلے کبھی پل میں تو فنا ہو
ہے طویل آرزو بھی نہ خبر کسی کو پل کی
کہ چراغ کوئی جلتا کبھی پل میں ہی بجھا ہو
کبھی ظلمتوں کے پیچھے کوئی روشنی بھی آئے
کوئی غم نہ ہو بھی ایسا کہ دوام ہی ملا ہو
نہ قرار اس جہاں کو نہ دوام اس جہاں کو
کہ کبھی امیر کوئی وہ گدا ابھی دکھا ہو
نہ رہا کوئی ہلاکو نہ رہا کوئی سکندر
نہ رہی وہ شان و شوکت نہ تو ساتھ کچھ گیا ہو
نہ ہو زندگی میں غفلت نہ تو بے حسی کبھی ہو
وہ عمل جو کام آئے تو اسی میں دل لگا ہو
جو خلوص ہو عمل میں تو عمل وزن بھاری
یہی فکر اثر کی ہو یہی اس کا مدعا ہو