یہ جو سر انجمن ہیں بیٹھے شرمائے ہوئے
دراصل متعدد عقد ہیں فرمائے ہوئے
حالات زمانہ ہی تو ہیں، بگڑہں تو بگڑیں
وہ تو فقط پھرتے ہیں زلف کو الجھائے ہو ئے
گر کسی شوخ سے ٹکرا گئے تو کیا قصور
ہم تو چلے جاتے تھے افق پہ نظر جمائے ہوئے
اب اٹھ بھی چلیے ورنہ سواری نہ ملے گی
دیر سے ہیں بزم جاناں میں ڈیرے جمائے ہوئے
وقت ملاقات آہ بجلی نے دھوکہ دے دیا
لوٹ آئے کہ تھے گرمی سے گھبرائے ہوئے
غچہ ان کو دے، کس خوبی سے ہم نکلے
وہ کھڑے ہی رہ گئے ہاتھ پہیلائے ہوئے
غزل اس رنگ میں کہنا آساں نہیں شارق
جانے کتنے ہیں اس طرز سے مار کھائے ہوئے