یہ حقیقت ہے وہ کمزور ہوا کرتی ہیں
اپنی تقدیر کا قومیں جو گلہ کرتی ہیں
ریت پر جب بھی بناتا ہے گھروندا کوئی
سر پھری موجیں اسے دیکھ لیا کرتی ہیں
میں گلستاں کی حفاظت کی دعا کرتا ہوں
بجلیاں میرے نشیمن پہ گرا کرتی ہیں
جانے کیا وصف نظر آتا ہے مجھ میں ان کو
تتلیاں میرے تعاقب میں رہا کرتی ہیں
تیری دہلیز سے نسبت جسے ہو جاتی ہے
عظمتیں اس کے مقدر میں ہوا کرتی ہیں
کیوں نہ گل بوٹوں کے چہروں پہ نکھار آ جائے
یہ ہوائیں جو ترا ذکر کیا کرتی ہیں
اپنی نظروں میں جو رکھتا ہے ترے نقش قدم
منزلیں اس کے تعاقب میں رہا کرتی ہیں
چین کی نیند مجھے آئے تو کیسے آئے
میری آنکھیں جو ترا خواب بنا کرتی ہیں
اس کی رحمت کے دیئے جو بھی ہیں روشن افضلؔ
آندھیاں ان کی حفاظت میں رہا کرتی ہیں