یہ خانہ خدا یہ عبادت گہہ مومن
اُس روز ہو گئی تھی شہادت گہہ مومن
خونِ معصوم سے جب اس کی زمیں سرخ ہوئی تھی
ہر سمت اس کے صحن میں جب لالہ کھلی تھی
منظر میری آنکھوں میں بسا آج بھی وہ ہے
موت میرے پاس سے جب ہو کے گئی تھی
میرے کھیل کے سا تھی وہ میرے دوست تھے سارے
اُن سے کھیل کود کے میں نے کئی دن تھے گزارے
اُن لمحوں کی لذت مجھے محسوس ہے اب بھی
آتے ہیں میرے پاس وہ، سوچوں اُنہیںجب بھی
لگتی تھی دوڑ ہم میں کہ جیتے گا کون آج
مسجد میں جو پہنچ گیا اول، اُسی کا تاج
﴿پھر کسی ظالم نے محفل یہ اجاڑی﴾
یہ پوچھے کوئی ان سے کہ تم کون ہو کیا ہو
کیا سوچتے تم خود کو بندگانِ وفا ہو
کہتا ہوں میں تم ظلم کی تصویرِمحبت کی ادا میں
سچ یہ ہے کہ تم جبر کی تدبیر اور تقدیرِخدا میں
سن لے یہ ہر ایک ظالم و جابر کہ اندھیرا
مٹتا ہے تو نکلتا ہے ہر روز سویرا
اس دیس کا ہر بچہ اطاعت کی ادا بن کے رہے گا
وہ خون جو بہا ہے محبت کی بِنا بن کے رہے گا