یہ دور خرد ہے دور جنوں اس دور میں جینا مشکل ہے
انگور کی مے کے دھوکے میں زہراب کا پینا مشکل ہے
جب ناخن وحشت چلتے تھے روکے سے کسی کے رک نہ سکے
اب چاک دل انسانیت سیتے ہیں تو سینا مشکل ہے
اک صبر کے گھونٹ سے مٹ جاتی تب تشنہ لبوں کی تشنہ لبی
کم ظرفیٔ دنیا کے صدقے یہ گھونٹ بھی پینا مشکل ہے
وہ شعلہ نہیں جو بجھ جائے آندھی کے ایک ہی جھونکے سے
بجھنے کا سلیقہ آساں ہے جلنے کا قرینہ مشکل ہے
کرنے کو رفو کر ہی لیں گے دنیا والے سب زخم اپنے
جو زخم دل انساں پہ لگا اس زخم کا سینہ مشکل ہے
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے ماحول کے خونی منظر سے
اس حال میں جینا لازم ہے جس حال میں جینا مشکل ہے
ملنے کو ملے گا بالآخر اے عرشؔ سکون ساحل بھی
طوفان حوادث سے لیکن بچ جائے سفینہ مشکل ہے