یہ زمیں ہم کو ملی بہتے ہوئے پانی کے ساتھ
اک سمندر پار کرنا ہے اسی کشتی کے ساتھ
عمر یونہی تو نہیں کٹتی بگولوں کی طرح
خاک اڑنے کے لیے مجبور ہے آندھی کے ساتھ
جانے کس امید پر ہوں آبیاری میں مگن
ایک پتہ بھی نہیں سوکھی ہوئی ٹہنی کے ساتھ
میں ابھی تک رزق چننے میں یہاں مصروف ہوں
لوٹ جاتے ہیں پرندے شام کی سرخی کے ساتھ
پھینک دے باہر کی جانب اپنے اندر کی گھٹن
اپنی آنکھوں کو لگا دے گھر کی ہر کھڑکی کے ساتھ
جان جا سکتی ہے خوشبو کے تعاقب میں نویدؔ
سانپ بھی ہوتا ہے اکثر رات کی رانی کے ساتھ