یہ سُر تو لگتے نہیں ہیں مجھے ٹھکانے کے
سنا رہے ہو مجھے گیت کس زمانے کے
مجھے تو ان کے روّیوں سے ایسا لگتا ہے
یہ اہلِ علم نہیں ، سانپ ہیں خزانے کے
تمہارے پاس سہی ، آزمائشوں کی کلید
ہمیں بھی آتے ہیں گُر ، تم کو آزمانے کے
کبھی شگفتہ دہن تھے سو اب بھی ہیں قدرے
پر عادی ہو سے گئے بارِ غم اٹھانے کے
خزاں رسیدہ درختوں میں نوحہ گر ہے ہوا
دن آگئے ہیں یقیناؐ چمن سے جانے کے
ستمگروں نے ہمیں مہلت دعا بھی نہ دی
ہمارے خواب تھے کچھ بستیاں بسانے کے
ہر ایک لقمہء تر پہ ہو شکر کا سجدہ
کہ قرض دار ہیں ہم ایک ایک دانے کے