یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
Poet: Mirza Ghalib By: Ibrahim, khi
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا 
 اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا 
 
 ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا 
 کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا 
 
 تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا 
 کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا 
 
 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو 
 یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا 
 
 یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح 
 کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا 
 
 رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا 
 جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا 
 
 غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے 
 غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا 
 
 کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے 
 مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا 
 
 ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا 
 نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا 
 
 اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا 
 جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا 
 
 یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ 
 تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا






