یہ کیا طلسم ہے دنیا پہ بار گزری ہے
وہ زندگی جو سر رہ گزار گزری ہے
گلوں کی گم شدگی سے سراغ ملتا ہے
کہیں چمن سے نسیم بہار گزری ہے
کہیں سحر کا اجالا ہوا ہے ہم نفسو
کہ موج برق سر شاخسار گزری ہے
رہا ہے یہ سر شوریدہ مثل شعلہ بلند
اگرچہ مجھ پہ قیامت ہزار گزری ہے
یہ حادثہ بھی ہوا ہے کہ عشق یار کی یاد
دیار قلب سے بیگانہ وار گزری ہے
انہیں کو عرض وفا کا تھا اشتیاق بہت
انہیں کو عرض وفا نا گوار گزری ہے
حریم شوق مہکتا ہے آج تک عابدؔ
یہاں سے نکہت گیسوئے یار گزری ہے