یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے
Poet: Bismil Allahabadi By: tufail, khi
یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے
کوئی پروانہ جل مرنے کو کیا محفل میں باقی ہے
ہزاروں اٹھ گئے دنیا سے اپنی جان دے دے کر
مگر اک بھیڑ پھر بھی کوچۂ قاتل میں باقی ہے
ہوئے وہ مطمئن کیوں صرف میرے دم نکلنے پر
ابھی تو ایک دنیائے تمنا دل میں باقی ہے
ہوا تھا غرق بحر عشق اس انداز سے کوئی
کہ نقشہ ڈوبنے کا دیدۂ ساحل میں باقی ہے
قضا سے کوئی یہ کہہ دے کہ مشتاق شہادت ہوں
ابھی اک مرنے والا کوچۂ قاتل میں باقی ہے
کہاں فرصت ہجوم رنج و غم سے ہم جو یہ جانچیں
کہ نکلی کیا تمنا کیا تمنا دل میں باقی ہے
ابھی سے اپنا دل تھامے ہوئے کیوں لوگ بیٹھے ہیں
ابھی تو حشر اٹھنے کو تری محفل میں باقی ہے
وہاں تھے جمع جتنے مرنے والے مر گئے وہ سب
قضا لے دے کے بس اب کوچۂ قاتل میں باقی ہے
ابھی سے تو نے قاتل میان میں تلوار کیوں رکھ لی
ابھی تو جان تھوڑی سی تن بسملؔ میں باقی ہے
وہ جیتے ہیں لیکن ان کو مرنے کے سوا کچھ کام نہیں
افلاک کی گردش سے دم بھر دنیا میں ہمیں آرام نہیں
وہ دن نہیں وہ اب رات نہیں وہ صبح نہیں وہ شام نہیں
کیوں ہم نے محبت کی ان سے دقت میں پھنسے زحمت میں پھنسے
آغاز ہی میں دل میں کہتا تھا اچھا اس کا انجام نہیں
اس کا بھی الم اس کا بھی قلق یہ غم بھی ہمیں وہ غم بھی ہمیں
جینے کو غنیمت سمجھے تھے جینے میں مگر آرام نہیں
گلشن میں خزاں اب آ پہنچی مے خانے میں جی کیوں کر بہلے
وہ رنگ نہیں وہ لطف نہیں وہ دور نہیں وہ جام نہیں
ہر سانس سے آتی ہے یہ صدا مرنے کے لئے تیار رہو
جینے سے نہیں کچھ دلچسپی جینے سے ہمیں کچھ کام نہیں
قاتل کو یہ سمجھا دے کوئی نالے سے فغاں سے شیون سے
بسمل نہ کروں میں اے بسملؔ تو بسمل میرا نام نہیں
کوئی پروانہ جل مرنے کو کیا محفل میں باقی ہے
ہزاروں اٹھ گئے دنیا سے اپنی جان دے دے کر
مگر اک بھیڑ پھر بھی کوچۂ قاتل میں باقی ہے
ہوئے وہ مطمئن کیوں صرف میرے دم نکلنے پر
ابھی تو ایک دنیائے تمنا دل میں باقی ہے
ہوا تھا غرق بحر عشق اس انداز سے کوئی
کہ نقشہ ڈوبنے کا دیدۂ ساحل میں باقی ہے
قضا سے کوئی یہ کہہ دے کہ مشتاق شہادت ہوں
ابھی اک مرنے والا کوچۂ قاتل میں باقی ہے
کہاں فرصت ہجوم رنج و غم سے ہم جو یہ جانچیں
کہ نکلی کیا تمنا کیا تمنا دل میں باقی ہے
ابھی سے اپنا دل تھامے ہوئے کیوں لوگ بیٹھے ہیں
ابھی تو حشر اٹھنے کو تری محفل میں باقی ہے
وہاں تھے جمع جتنے مرنے والے مر گئے وہ سب
قضا لے دے کے بس اب کوچۂ قاتل میں باقی ہے
ابھی سے تو نے قاتل میان میں تلوار کیوں رکھ لی
ابھی تو جان تھوڑی سی تن بسملؔ میں باقی ہے
کوئی پروانہ جل مرنے کو کیا محفل میں باقی ہے
ہزاروں اٹھ گئے دنیا سے اپنی جان دے دے کر
مگر اک بھیڑ پھر بھی کوچۂ قاتل میں باقی ہے
ہوئے وہ مطمئن کیوں صرف میرے دم نکلنے پر
ابھی تو ایک دنیائے تمنا دل میں باقی ہے
ہوا تھا غرق بحر عشق اس انداز سے کوئی
کہ نقشہ ڈوبنے کا دیدۂ ساحل میں باقی ہے
قضا سے کوئی یہ کہہ دے کہ مشتاق شہادت ہوں
ابھی اک مرنے والا کوچۂ قاتل میں باقی ہے
کہاں فرصت ہجوم رنج و غم سے ہم جو یہ جانچیں
کہ نکلی کیا تمنا کیا تمنا دل میں باقی ہے
ابھی سے اپنا دل تھامے ہوئے کیوں لوگ بیٹھے ہیں
ابھی تو حشر اٹھنے کو تری محفل میں باقی ہے
وہاں تھے جمع جتنے مرنے والے مر گئے وہ سب
قضا لے دے کے بس اب کوچۂ قاتل میں باقی ہے
ابھی سے تو نے قاتل میان میں تلوار کیوں رکھ لی
ابھی تو جان تھوڑی سی تن بسملؔ میں باقی ہے






