یہاں کون کِسی کا ہوتا ہے
Poet: umar draaz By: umar draaz, gujrat
یہ بارِ ش کا موسم بھی بہت ہی عجیب ہوتا ہے
اکثر کوئی یاد آتا ہے جو دِل کے قریب ہوتا ہے
ٹھنڈی ہوا جب چلتی ہے یاد اُس کی ہی آتی ہے
پانی کی برستی بوندوں میں بَس اِک ہی چہرہ ہوتا ہے
بارش کی نمی ہو فِضا میں جب تک اُسی کی خُوشبو آتی ہے
نہ دن میں سکون ملتا ہے نہ رات کو پَگلا دِل سوتا ہے
کسی کو چاہے جو بھی لگے یہ بات اِک اَٹل حقیقت ہے
جِس نے پیار کیا کسی سے اَکثر وہی دِل روتا ہے
یہ دُنیا مسافر خانہ ہے کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے
کِسی کو بھی سکون ملتا نہیں نہ نیند کوئی چین کی سوتا ہے
یہاں ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو مَست ہیں اپنی دُھن میں سارے
اور وہ بھی تو انسان ہے آخر ۔۔۔جو اپنا سب کچھ کھوتا ہے
ہزار نصیحت کی تھی میں نے مَت کر غَموں کی کاشتکاری
کاٹنا بھی اُسی کو پڑتا ہے جو بیج ہاتھوں سے بوتا ہے
کِسی کے عِشق میں خود کو فنا مَت کرنا درؔاز
یہ دنیا ہے مطلب کی ساری ''یہاں کون کِسی کا ہوتا ہے ''
آسماں ہوتا رہے اشک فشاں بارش میں
سارے صحرائی رہائی کے تمنائی نہ تھے
آ گیا لے کے ہمیں قیس کہاں بارش میں
گھونسلے ٹوٹ گئے پیڑ گرے باندھ گرے
گاؤں پہ پھر بھی جواں نشۂ جاں بارش میں
تیری سرسبز بہاروں پہ دمکتے قطرے
لوح محفوظ کے کچھ رمز نہاں بارش میں
لب احساس کبھی تو کسی قابل ہو جا
چوم لے منزل مبہم کے نشاں بارش میں
ہانپتی کانپتی مضبوط ارادوں والی
بنچ پہ بیٹھی ہوئی محو گماں بارش میں
پہلی ٹپ ٹپ ہی مرے ہوش اڑا دیتی ہے
نیند اڑتی ہے اٹک جاتی ہے جاں بارش میں
آج بھی ڈرتا ہوں بجلی کے کڑاکے سے بہت
اس کو قابو میں کیا کرتی تھی ماں بارش میں
میرے کمرے کا مکیں حبس گلا گھونٹتا ہے
کوئی تو رمز اذیت ہے نہاں بارش میں
اب کے ساون بھی گیا مجھ پہ نہ برسا بادل
سیپ بجھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھتے ہیں
کیسی برسات مری جان کہاں کا بادل
وہ بھی دن تھے کہ ٹپکتا تھا چھتوں سے پہروں
اب کے پل بھر بھی منڈیروں پہ نہ ٹھہرا بادل
فرش پر گر کے بکھرتا رہا پارے کی طرح
سبز باغوں میں مرے بعد نہ جھولا بادل
لاکھ چاہا نہ ملی پیار کی پیاسی آغوش
گھر کی دیوار سے سر پھوڑ کے رویا بادل
آج کی شب بھی جہنم میں سلگتے ہی کٹی
آج کی شب بھی تو بوتل سے نہ چھلکا بادل







