یہی تو اپنی نگاہِ حسرت نے اثر ایسا دکھا دیا
کہ وہ بھی ہم پر ہوئے مہرباں نصیب اپنا جگا دیا
یہی ہماری تو جاں نثاری نے رنگ ایسا جما دیا
کہ راہ جو بھی کٹھن ملی تو اسے بھی آساں بنا دیا
کبھی تو دل سے گزرنا ان کا نہ کچھ بھی محسوس ہو سکا
کبھی صدا تو ہوئی بھی ایسی کہ اور تجسس بڑھا دیا
نہ کوئی اپنا جہاں میں ہمدم نہ کوئی ہمراز بھی کہیں
ملی رفاقت جو ان کی ہم کو تو سب کو ہم نے بھلا دیا
ٹھکانہ دنیا کا عارضی ہے کوئی گیا آج کوئی کل
کسی نے غفلت میں رہ کر اپنا متاعِ دیں بھی گنوا دیا
کبھی نہ دنیا کا یہ خزانہ کسی کے بھی کام آئے گا
خدا نے قارون کو خزانہ سمیت اس کے دھنسا دیا
یہی تو ہے اثر کا مشن بس اسی پہ اس کو قرار ہے
نہ ہو جہاں میں کہیں بھی ظلمت اسی میں خود کو کھپا دیا