ﺟﻮ ﺣﺎﺩﺛﮯ ﯾﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
Poet: Saghar Siddiqui By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI
ﺟﻮ ﺣﺎﺩﺛﮯ ﯾﮧ ﺟﮩﺎﮞ
ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺑﮍﮮ ﺧﻠﻮﺹ ﺳﮯ ﺩﻝ ﻧﺬﺭِ
ﺟﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮨﻤﯿﮟ ﺳﮯ ﻗﻮﺱِ ﻗﺰﺡ ﮐﻮ
ﻣِﻠﯽ ﮨﮯ ﺭﻧﮕﯿﻨﯽ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭ ﭘﮧ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻗﯿﺎﻡ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭼﺎﮎِ ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﺳﮯ
ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮ
ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺝ ﺳﻼﻡ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﻣﯿﮑﺪﮦ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﮨﺮ
ﺍﯾﮏ ﺷﮯ ﮐﺎ ﺣﻀﻮﺭ
ﻏﻢِ ﺣﯿﺎﺕ ﺑﮩﺖ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻓﻘﯿﮩﮧِ ﺷﮩﺮ ﻧﮯ ﺗُﮩﻤﺖ
ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺳﺎﻏﺮ ﭘﺮ
ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ
ﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
More Saghar Siddiqui Poetry
میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغرؔ وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغرؔ وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا
qamar
محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا
ہر مسرت غم دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا
ان گنت محفلیں محروم چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا
جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا
ہائے آداب محبت کے تقاضے ساغرؔ
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا
ہر مسرت غم دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا
ان گنت محفلیں محروم چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا
جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا
ہائے آداب محبت کے تقاضے ساغرؔ
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
lubna
خطاوار مروت ہو نہ مرہون کرم ہو جا خطاوار مروت ہو نہ مرہون کرم ہو جا
مسرت سر جھکائے گی پرستار الم ہو جا
انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی
انہی الجھی ہوئی راہوں پہ میرا ہم قدم ہو جا
کسی زردار سے جنس تبسم مانگنے والے
کسی بیکس کے لاشے پر شریک چشم نم ہو جا
کسی دن ان اندھیروں میں چراغاں ہو ہی جائے گا
جلا کر داغ دل کوئی ضیائے شام غم ہو جا
تجھے سلجھائے گا اب انقلاب وقت کا شانہ
تقاضائے جنوں ہے گیسوئے دوراں کا خم ہو جا
تجسس مرکز تقدیر کا قائل نہیں ہوتا
شعور بندگی! بیگانۂ دیر و حرم ہو جا
یہ منزل اور گرد کارواں ساغرؔ کہاں اپنے
سمٹ کر رہ گزار وقت پر نقش قدم ہو جا
مسرت سر جھکائے گی پرستار الم ہو جا
انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی
انہی الجھی ہوئی راہوں پہ میرا ہم قدم ہو جا
کسی زردار سے جنس تبسم مانگنے والے
کسی بیکس کے لاشے پر شریک چشم نم ہو جا
کسی دن ان اندھیروں میں چراغاں ہو ہی جائے گا
جلا کر داغ دل کوئی ضیائے شام غم ہو جا
تجھے سلجھائے گا اب انقلاب وقت کا شانہ
تقاضائے جنوں ہے گیسوئے دوراں کا خم ہو جا
تجسس مرکز تقدیر کا قائل نہیں ہوتا
شعور بندگی! بیگانۂ دیر و حرم ہو جا
یہ منزل اور گرد کارواں ساغرؔ کہاں اپنے
سمٹ کر رہ گزار وقت پر نقش قدم ہو جا
Nabeel
تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا
جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا
شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا
یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا
تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا
افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے گیا
بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا
افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا
جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا
شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا
یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا
تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا
افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے گیا
بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا
nadir
اے دل بے قرار چپ ہو جا اے دل بے قرار چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار چپ ہو جا
اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدۂ اشک بار چپ ہو جا
جا چکا کاروان لالہ و گل
اڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا
چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو
روٹھ جاتے ہیں یار چپ ہو جا
ہم فقیروں کا اس زمانے میں
کون ہے غم گسار چپ ہو جا
حادثوں کی نہ آنکھ کھل جائے
حسرت سوگوار چپ ہو جا
گیت کی ضرب سے بھی اے ساغرؔ
ٹوٹ جاتے ہیں تار چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار چپ ہو جا
اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدۂ اشک بار چپ ہو جا
جا چکا کاروان لالہ و گل
اڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا
چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو
روٹھ جاتے ہیں یار چپ ہو جا
ہم فقیروں کا اس زمانے میں
کون ہے غم گسار چپ ہو جا
حادثوں کی نہ آنکھ کھل جائے
حسرت سوگوار چپ ہو جا
گیت کی ضرب سے بھی اے ساغرؔ
ٹوٹ جاتے ہیں تار چپ ہو جا
murtaza






