سوالیہ نشان نظم " میں کون ہوں؟"

Poet: مونا شہزاد By: Mona Shehzad, Calgary

عجب زندگانی کی روانی ہے
بدلتے موسموں، بدلتے رشتوں کی کہانی ہے
کواڑ ہوگے ہیں" فصیل جاں "کہ بہت ہی بوسیدہ
اسی لیے تو اب " دیمک" کو آزادی ہے
اب نہیں ہے" اس "کو کسی کا بھی انتظار
کریہہ چہروں ،مکروہ رویوں کی فراوانی ہے،
کسی وقت میں اس پر کوئی "بوجھ" بھاری نہ تھ
عجب ہے اب وہ سب پر "بھاری" ہے
خود اندر سے ٹھٹھر گئی ہے وہ
مشام جاں سے رخصت لے رہی ہے وہ
مژگاں سے حیرت سمیٹ رہی ہے وہ
اس "ناخدا "کے روئیے سے جو روز روز مرئے
خود اپنے ہاتھ سے " کشتی" کو سیندھ لگا رہی ہے وہ
کاتب تقدیر بھی ہے سخت اضطراب میں
اے رب! ایسی اندھیر نگری تیرے اس جہاں میں؟
آکر ٹہر چکے ہیں خزاں کے موسم
شاخ سے ٹوٹ کہ پتوں نے بھلا پھر کب بہار دیکھی ہے؟

Rate it:
Views: 612
08 Oct, 2018
More Life Poetry