Poetries by Tariq Iqbal Haavi
نہ دل اداس رکھنا تم سنو جاناں 
کیوں دوری کو لے کر
یوں تم اداس رہتی ہو؟
بھلے تم دور ہو مجھ سے
مگر ہر پل ہر لمحہ
دل کے پاس رہتی ہو
قسم جاناں تمہیں میری
کہ اب اس دوری کو لے کر
نہ دل اداس رکھنا تم
مجھے موجود پاٶ گی
میری یادیں میری باتیں
بس اپنے پاس رکھنا تم
فاصلے جو مقدر ہیں
ہمیشہ تو نہیں رہنے
ہنسی چہرے کِھلائے گی
سدا تو اشک نہیں بہنے
مقدر مہرباں ہو گا
ملن کی آس رکھنا تم
کہ اب اس دوری کو لے کر
نہ دل اداس رکھنا تم
کڑا ہے وقت یہ جاناں
مگر تم حوصلہ رکھنا
میرے وعدوں پہ تم جاناں
بھروسے کو بنا رکھنا
میری چاہت کا، جذبوں کا
سدا بس پاس رکھنا تم
کہ اب اس دوری کو لے کر
نہ دل اداس رکھنا تم
ہمیں اک جان ہونا ہے
اور اک تقدیر ہونا ہے
تمہارے سنگ ہی خوابوں کو
میرے تعبیر ہونا ہے
اپنے ہر خواب کو جاناں
ہمیشہ خاص رکھنا تم
کہ اب اس دوری کو لے کر
نہ دل اداس رکھنا تم
طارق اقبال حاوی
کیوں دوری کو لے کر
یوں تم اداس رہتی ہو؟
بھلے تم دور ہو مجھ سے
مگر ہر پل ہر لمحہ
دل کے پاس رہتی ہو
قسم جاناں تمہیں میری
کہ اب اس دوری کو لے کر
نہ دل اداس رکھنا تم
مجھے موجود پاٶ گی
میری یادیں میری باتیں
بس اپنے پاس رکھنا تم
فاصلے جو مقدر ہیں
ہمیشہ تو نہیں رہنے
ہنسی چہرے کِھلائے گی
سدا تو اشک نہیں بہنے
مقدر مہرباں ہو گا
ملن کی آس رکھنا تم
کہ اب اس دوری کو لے کر
نہ دل اداس رکھنا تم
کڑا ہے وقت یہ جاناں
مگر تم حوصلہ رکھنا
میرے وعدوں پہ تم جاناں
بھروسے کو بنا رکھنا
میری چاہت کا، جذبوں کا
سدا بس پاس رکھنا تم
کہ اب اس دوری کو لے کر
نہ دل اداس رکھنا تم
ہمیں اک جان ہونا ہے
اور اک تقدیر ہونا ہے
تمہارے سنگ ہی خوابوں کو
میرے تعبیر ہونا ہے
اپنے ہر خواب کو جاناں
ہمیشہ خاص رکھنا تم
کہ اب اس دوری کو لے کر
نہ دل اداس رکھنا تم
طارق اقبال حاوی
میں جب لکھوں , پڑھوں نامِ محمد میں جب لکھوں , پڑھوں نامِ محمدﷺ
تو دے دل کو سکوں نامِ محمدﷺ
پکاروں جب بھی , کردے دور مجھ سے
جہاں کے سب فسوں نامِ محمدﷺ
مُعبر ! خواب کی تعبیر کیا ہے؟
میں عَلموں پر کڑھوں نامِ محمدﷺ
ملے گا جامِ کوثر اُس جہاں میں
یہاں پر میں پیوں نامِ محمد ﷺ
یہی حسرت ہے کردیں اذن جاری
میں روضے پر جیوں نامِ محمدﷺ
سرِ محشر یہ مجھ کو ڈھانپ لے گا
نہ پھر میں کیوں بُنوں نامِ محمدﷺ
عطا ہے نعت انﷺ کی حاوی , ورنہ
کہاں جرأت لکھوں نامِ محمدﷺ طارق اقبال حاوی
تو دے دل کو سکوں نامِ محمدﷺ
پکاروں جب بھی , کردے دور مجھ سے
جہاں کے سب فسوں نامِ محمدﷺ
مُعبر ! خواب کی تعبیر کیا ہے؟
میں عَلموں پر کڑھوں نامِ محمدﷺ
ملے گا جامِ کوثر اُس جہاں میں
یہاں پر میں پیوں نامِ محمد ﷺ
یہی حسرت ہے کردیں اذن جاری
میں روضے پر جیوں نامِ محمدﷺ
سرِ محشر یہ مجھ کو ڈھانپ لے گا
نہ پھر میں کیوں بُنوں نامِ محمدﷺ
عطا ہے نعت انﷺ کی حاوی , ورنہ
کہاں جرأت لکھوں نامِ محمدﷺ طارق اقبال حاوی
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
تو پھر من کو لگا کر خوب، تمہیں اچھے سے پڑھنا ہے
بڑے جو بھی سکھاتے ہیں، سمجھتے تم جو جاٶ گے
کرو استاد کی عزت، تبھی رتبہ بھی پاٶ گے
ہمیشہ کامیابی کی، جو سیڑھی تم کو چڑھنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
کوئی رنجش نہیں رکھنا، نفرت کو مٹاٶ تم
شیرینی گفتگو کر کے، محبت کو پھیلاٶ تم
سبھی سے پیار کرنا ہے، کسی سے بھی نہ لڑنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
پڑھائی سے ملے فرصت، تو کھیلو اور کُودو تم
رہے گی صحت بھی اچھی، صفائی کو جو رکھو تم
سُستی کو بھگانا ہے، تمہیں چُستی پکڑنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
علم ہر مسئلے کا حل ہے، علم میں ہی تو حکمت ہے
علم سے ملتی ہے منزل، علم سے کچھ نہ دِقت ہے
جلاٶ پھر علم کی شمع، اندھیروں سے کیا ڈرنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
تو پھر من کو لگا کر خوب، تمہیں اچھے سے پڑھنا ہے طارق اقبال حاوی
تو پھر من کو لگا کر خوب، تمہیں اچھے سے پڑھنا ہے
بڑے جو بھی سکھاتے ہیں، سمجھتے تم جو جاٶ گے
کرو استاد کی عزت، تبھی رتبہ بھی پاٶ گے
ہمیشہ کامیابی کی، جو سیڑھی تم کو چڑھنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
کوئی رنجش نہیں رکھنا، نفرت کو مٹاٶ تم
شیرینی گفتگو کر کے، محبت کو پھیلاٶ تم
سبھی سے پیار کرنا ہے، کسی سے بھی نہ لڑنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
پڑھائی سے ملے فرصت، تو کھیلو اور کُودو تم
رہے گی صحت بھی اچھی، صفائی کو جو رکھو تم
سُستی کو بھگانا ہے، تمہیں چُستی پکڑنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
علم ہر مسئلے کا حل ہے، علم میں ہی تو حکمت ہے
علم سے ملتی ہے منزل، علم سے کچھ نہ دِقت ہے
جلاٶ پھر علم کی شمع، اندھیروں سے کیا ڈرنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
تو پھر من کو لگا کر خوب، تمہیں اچھے سے پڑھنا ہے طارق اقبال حاوی
انقلاب دل سے اُٹھتا ہے اے میرے دیس کے لوگو
کبھی اک لمحے کو سوچو
جس انقلاب کی خاطر
سر پہ باندھ کر کفنی
گھروں سے تم جو نکلے ہو
اُس انقلاب کا عنصر
کوئی سا اک بھی تم میں ہے؟
بازار لوٹ کے اپنے
دکانوں کو جلا دینا
ریاست کے ستونوں کو
بِنا سوچے گرا دینا
تباہی ہی تباہی ہے
خرابی ہی خرابی ہے
نہیں کچھ انقلابی ہے
نہیں یہ انقلابی ہے
سیاسی بُت کی چاہت میں
ریاست سے کیوں لڑتے ہو؟
فقط کم عقلی ہے یہ تو
جو آپس میں جھگڑتے ہو
گر انقلاب لانا ہے
تو پہلے خود میں ڈھونڈو تم
تمہارے بُت کے اندر ہی
جو شخص اک سانس لیتا ہے
کیا وہ سچ میں زندہ ہے؟
وہ اپنے قولوں، عملوں پر
راضی یا شرمندہ ہے؟
بِنا اصلاح کے اپنی
انقلاب آیا نہیں کرتے
انقلاب دل سے اُٹھتا ہے
اِسے لایا نہیں کرتے طارق اقبال حاوی
کبھی اک لمحے کو سوچو
جس انقلاب کی خاطر
سر پہ باندھ کر کفنی
گھروں سے تم جو نکلے ہو
اُس انقلاب کا عنصر
کوئی سا اک بھی تم میں ہے؟
بازار لوٹ کے اپنے
دکانوں کو جلا دینا
ریاست کے ستونوں کو
بِنا سوچے گرا دینا
تباہی ہی تباہی ہے
خرابی ہی خرابی ہے
نہیں کچھ انقلابی ہے
نہیں یہ انقلابی ہے
سیاسی بُت کی چاہت میں
ریاست سے کیوں لڑتے ہو؟
فقط کم عقلی ہے یہ تو
جو آپس میں جھگڑتے ہو
گر انقلاب لانا ہے
تو پہلے خود میں ڈھونڈو تم
تمہارے بُت کے اندر ہی
جو شخص اک سانس لیتا ہے
کیا وہ سچ میں زندہ ہے؟
وہ اپنے قولوں، عملوں پر
راضی یا شرمندہ ہے؟
بِنا اصلاح کے اپنی
انقلاب آیا نہیں کرتے
انقلاب دل سے اُٹھتا ہے
اِسے لایا نہیں کرتے طارق اقبال حاوی
ایمبولینس نظم جانتے بھی ہو
یہ کس کا راستہ روکا ہے
یہ کوئی اور ہی مخلوق ہے
جو تمہاری طرح تو بالکل بھی نہیں
انکا فرقہ صرف انسانیت ہے
یہ وہی ایمبولینس اور اس کا عملہ ہے
جو اپنے فرض سے غافل نہیں ہوتے
حالات کیسے بھی ہوں
یہ اپنے حصہ کا کام کرنا بخوبی جانتے ہیں
ابھی جب توڑ پھوڑ، شور و غُل
اور اپنوں سے مار پِیٹ کر کے
زخموں سے چُور ہو کر گرو گے
تو یہی مخلوق تم کو اٹھا کر لے جائے گی
تمہاری جان بچائے گی
کتنی عجیب بات ہے نا
کہ میں نے انکی ایمبولینس میں
موجود دائیں بائیں دونوں سٹریچرز پر کئی بار
باہر خونی جنگ کرنے والوں کو
اندر اکھٹے لیٹے دیکھا ہے
کیونکہ انکا فرقہ انسانیت ہے
مگر تم نے یہ کر ڈالا؟
جسے تم کو بچانا تھا
جسے تم کو اُٹھانا تھا
اس کو ہی توڑ دیا ہے
خدارا.... یہ کیا کِیا ہے
خدارا.... یہ کیا کِیا ہے
طارق اقبال حاوی
یہ کس کا راستہ روکا ہے
یہ کوئی اور ہی مخلوق ہے
جو تمہاری طرح تو بالکل بھی نہیں
انکا فرقہ صرف انسانیت ہے
یہ وہی ایمبولینس اور اس کا عملہ ہے
جو اپنے فرض سے غافل نہیں ہوتے
حالات کیسے بھی ہوں
یہ اپنے حصہ کا کام کرنا بخوبی جانتے ہیں
ابھی جب توڑ پھوڑ، شور و غُل
اور اپنوں سے مار پِیٹ کر کے
زخموں سے چُور ہو کر گرو گے
تو یہی مخلوق تم کو اٹھا کر لے جائے گی
تمہاری جان بچائے گی
کتنی عجیب بات ہے نا
کہ میں نے انکی ایمبولینس میں
موجود دائیں بائیں دونوں سٹریچرز پر کئی بار
باہر خونی جنگ کرنے والوں کو
اندر اکھٹے لیٹے دیکھا ہے
کیونکہ انکا فرقہ انسانیت ہے
مگر تم نے یہ کر ڈالا؟
جسے تم کو بچانا تھا
جسے تم کو اُٹھانا تھا
اس کو ہی توڑ دیا ہے
خدارا.... یہ کیا کِیا ہے
خدارا.... یہ کیا کِیا ہے
طارق اقبال حاوی
اے عیدے تھوڑا رُک جا تُوں جے آنا تے سُن لے تُوں
تیرے آن نیں دل دُکھانا اِی
ساہنوں بالاں سوال سو پُچھنے
اساں چُپ وَٹنی، مُونہہ لُکانا اِی
ساڈے کول پُرانے لِیڑے نیں
سارے جی وی ہوگئے چِیڑے نیں
ہُن گھر دانے وی مُک چلے
تے خالی ہوگئے بَوجے نیں
ہُن بال، تاں روٹی نہیں منگدے
اوہ وی جاندے نیں کہ رَوجے نیں
میری من لے ٹھہر کے آ جاوِیں
فیر جم جم پھیرا پا جاوِیں
اَجے پلے ساڈے کُجھ وی نہیں
کِتھے سجے کھبے لُک جا تُوں
اے عیدے تھوڑا رُک جا تُوں
اے عیدے تھوڑا رُک جا تُوں طارق اقبال حاوی
تیرے آن نیں دل دُکھانا اِی
ساہنوں بالاں سوال سو پُچھنے
اساں چُپ وَٹنی، مُونہہ لُکانا اِی
ساڈے کول پُرانے لِیڑے نیں
سارے جی وی ہوگئے چِیڑے نیں
ہُن گھر دانے وی مُک چلے
تے خالی ہوگئے بَوجے نیں
ہُن بال، تاں روٹی نہیں منگدے
اوہ وی جاندے نیں کہ رَوجے نیں
میری من لے ٹھہر کے آ جاوِیں
فیر جم جم پھیرا پا جاوِیں
اَجے پلے ساڈے کُجھ وی نہیں
کِتھے سجے کھبے لُک جا تُوں
اے عیدے تھوڑا رُک جا تُوں
اے عیدے تھوڑا رُک جا تُوں طارق اقبال حاوی
رحم خدایا منگاں تیتھوں، جد ھُن بدل ورھدے ویکھاں  بندے، فصلاں، مال تے ڈنگر، پانی دے وچ تَردے ویکھاں
رحم خدایا منگاں تیتھوں، جد ھُن بدل ورھدے ویکھاں
 
بال تے سر دے تاج وی رُڑھ گئے، دِھیاں لئی جوڑے داج وی رُڑھ گئے
کلیجا ربا مونہہ نوں آوے، دُکھ کیہڑے گھر گھر دے ویکھاں
 
بے گھر ہوئے بے ڈنگ ہوئے، جیوندے جی لگدے نیں موئے
کنک تے چول دی فصلاں والے، روٹی روٹی کردے ویکھاں
 
کرنا کیہ کِسے نے ایتھے، کوئی وی پُچھن حال نہ آوے
رُلدے رُڑھدے بُھکھے رووَن، جِین لئی ہوکے بَھردے ویکھاں
 
کوئی نہ ساڈا دیس سنوارے، لُٹ لُٹ کھا گئے حاکم سارے
ہر وار ایتھے بس مظلوماں نوں، کسے دی آئی مَردے ویکھاں طارق اقبال حاوی
رحم خدایا منگاں تیتھوں، جد ھُن بدل ورھدے ویکھاں
بال تے سر دے تاج وی رُڑھ گئے، دِھیاں لئی جوڑے داج وی رُڑھ گئے
کلیجا ربا مونہہ نوں آوے، دُکھ کیہڑے گھر گھر دے ویکھاں
بے گھر ہوئے بے ڈنگ ہوئے، جیوندے جی لگدے نیں موئے
کنک تے چول دی فصلاں والے، روٹی روٹی کردے ویکھاں
کرنا کیہ کِسے نے ایتھے، کوئی وی پُچھن حال نہ آوے
رُلدے رُڑھدے بُھکھے رووَن، جِین لئی ہوکے بَھردے ویکھاں
کوئی نہ ساڈا دیس سنوارے، لُٹ لُٹ کھا گئے حاکم سارے
ہر وار ایتھے بس مظلوماں نوں، کسے دی آئی مَردے ویکھاں طارق اقبال حاوی
پناہ چاہتے ہیں سیلاب سے  میرے مولا 
اس بے رحم آب سے
پناہ چاہتے ہیں سیلاب سے
میرے مولا
سب کچھ تیرا ہے
تو ہی سب دینے والا
تو مالک ہے آزماتا ہے
تو دے کے لینے والا
ہر شے پہ ہے قدرت تیری
نہیں جانتے ہم حکمت تیری
میرے مولا
نہیں دیکھے جاتے ہم سے
جو ٹوٹ کے بہہ گئے پانی کے سنگ
گھر لوگوں کے پکے کچے
تنکوں کے جیسی تیرتی لاشیں
مال مویشی، بوڑھے، بچے
کھانے کو نہیں اک بھی لقمہ
پہننے کو لباس نہیں ہے
دلاسہ ہیں بس اک دوجے کا
کچھ بھی ان کے پاس نہیں ہے
تیری طرف ہیں روتی نظریں
اور کسی سے آس نہیں ہے
کر معاف ہمیں کرم فرما
کمزور ہیں ہم رحم فرما
میرے مولا
اس بے رحم آب سے
پناہ چاہتے ہیں سیلاب سے طارق اقبال حاوی
اس بے رحم آب سے
پناہ چاہتے ہیں سیلاب سے
میرے مولا
سب کچھ تیرا ہے
تو ہی سب دینے والا
تو مالک ہے آزماتا ہے
تو دے کے لینے والا
ہر شے پہ ہے قدرت تیری
نہیں جانتے ہم حکمت تیری
میرے مولا
نہیں دیکھے جاتے ہم سے
جو ٹوٹ کے بہہ گئے پانی کے سنگ
گھر لوگوں کے پکے کچے
تنکوں کے جیسی تیرتی لاشیں
مال مویشی، بوڑھے، بچے
کھانے کو نہیں اک بھی لقمہ
پہننے کو لباس نہیں ہے
دلاسہ ہیں بس اک دوجے کا
کچھ بھی ان کے پاس نہیں ہے
تیری طرف ہیں روتی نظریں
اور کسی سے آس نہیں ہے
کر معاف ہمیں کرم فرما
کمزور ہیں ہم رحم فرما
میرے مولا
اس بے رحم آب سے
پناہ چاہتے ہیں سیلاب سے طارق اقبال حاوی
بلاں دی کہانی ہیرے دے ہوٹل ول جان ساں میں لگا
کم توں آیا روٹی کھان ساں میں لگا
سارا دن میں کم کاج چہ لنگھایا
سویر دی سی کھادی ٹڈھے پان ساں میں لگا
ایہنے وچ ڈاکئے نے واج اک لائی
ارانہہ آ گامے تیرے ناویں ڈاک آئی
بچے ماں نال رہن نانکے سی گئے
میں سمجھیا اوہناں خبر خیر دی گھلائی
نٹھ کے میں ڈاکئے دے کول جا کھلوتا
کہیا اوہنوں چھیتی دے تے ٹائم لا نہ بوہتا
کہندا مینوں گامیا نہ بن بوہتا کاہلا
ہر کم اپنے ہے ٹائم پر ہوتا
کی دساں کیناں میں چاہ چڑھ گیا
ڈاک لیندیاں ہویاں مینوں ساہ چڑھ گیا
پھڑی ڈاک جدوں دل پاٹ گیا جیویں
بل تن اکٹھے ویکھ کے تے تاہ چڑھ گیا
اُنی سو روپئے بل گیس دا سی آیا
تیرہ سو روپئے پانی والیاں نے پایا
پوری تنخواہ میری بنھے لگ گئی
چودہ ہزار روپئے بتی والیاں ٹھکایا
اگلے دیہاڑ بل تارن لئی میں چلا
چابی گوانڈھیاں نوں دے کے تے گھر چھڈ کلا
کیہڑے بینک وچ تارنے نے بل میں تینے
میرا وڈا منڈا جاندا یا جاندا سی اللہ
ڈھائی تن سو کھڑے سی گبھرائے کملائے
سینمے دے باہر بندے لین بنائے
میں پوچھیا کہ پاجی کیہڑی فلم دی اے بکنگ
کہن لگا رب تینوں دن اے ویکھائے
اک کیہندا غریباں دے دل اتے سیخ اے
دوجا کیہندا سن میری چیخ وچ چیخ اے
تیجا کیہندا بینک اے کوئی سینما گھر نہیں
الو دیا پٹھیا اج بل دی تاریخ اے
اے نہیں پتہ مینوں میری واری کد آئی
بس ایہناں پتہ مینوں میری واری جد آئی
لین چہ کھلوتے ہویاں وال چیٹے ہو گئے
میرے چھلے والے منڈے دی سی شیو ودھ آئی
اڈیک اڈیک رو رو مینوں نمانی
دوجا بندہ کر لیا میری سوانی
میرے بچے مینوں آکھدے جے انکل
تے ایہہ سی جناب میری بلاں دی کہانی طارق اقبال حاوی
کم توں آیا روٹی کھان ساں میں لگا
سارا دن میں کم کاج چہ لنگھایا
سویر دی سی کھادی ٹڈھے پان ساں میں لگا
ایہنے وچ ڈاکئے نے واج اک لائی
ارانہہ آ گامے تیرے ناویں ڈاک آئی
بچے ماں نال رہن نانکے سی گئے
میں سمجھیا اوہناں خبر خیر دی گھلائی
نٹھ کے میں ڈاکئے دے کول جا کھلوتا
کہیا اوہنوں چھیتی دے تے ٹائم لا نہ بوہتا
کہندا مینوں گامیا نہ بن بوہتا کاہلا
ہر کم اپنے ہے ٹائم پر ہوتا
کی دساں کیناں میں چاہ چڑھ گیا
ڈاک لیندیاں ہویاں مینوں ساہ چڑھ گیا
پھڑی ڈاک جدوں دل پاٹ گیا جیویں
بل تن اکٹھے ویکھ کے تے تاہ چڑھ گیا
اُنی سو روپئے بل گیس دا سی آیا
تیرہ سو روپئے پانی والیاں نے پایا
پوری تنخواہ میری بنھے لگ گئی
چودہ ہزار روپئے بتی والیاں ٹھکایا
اگلے دیہاڑ بل تارن لئی میں چلا
چابی گوانڈھیاں نوں دے کے تے گھر چھڈ کلا
کیہڑے بینک وچ تارنے نے بل میں تینے
میرا وڈا منڈا جاندا یا جاندا سی اللہ
ڈھائی تن سو کھڑے سی گبھرائے کملائے
سینمے دے باہر بندے لین بنائے
میں پوچھیا کہ پاجی کیہڑی فلم دی اے بکنگ
کہن لگا رب تینوں دن اے ویکھائے
اک کیہندا غریباں دے دل اتے سیخ اے
دوجا کیہندا سن میری چیخ وچ چیخ اے
تیجا کیہندا بینک اے کوئی سینما گھر نہیں
الو دیا پٹھیا اج بل دی تاریخ اے
اے نہیں پتہ مینوں میری واری کد آئی
بس ایہناں پتہ مینوں میری واری جد آئی
لین چہ کھلوتے ہویاں وال چیٹے ہو گئے
میرے چھلے والے منڈے دی سی شیو ودھ آئی
اڈیک اڈیک رو رو مینوں نمانی
دوجا بندہ کر لیا میری سوانی
میرے بچے مینوں آکھدے جے انکل
تے ایہہ سی جناب میری بلاں دی کہانی طارق اقبال حاوی
چار پیسے کماتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے چار پیسے کماتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
پھل محنت کا پاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
تلخیاں سب زمانے کی، جھیل کر سختیاں دن بھر
جب واپس گھر کو آتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
بچے دوڑ کر ٹانگوں سے اسکی جب لپٹتے ہیں
تھکاوٹ بھول جاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
بہت لاڈ و محبت سے، تھکن سے چور کاندھوں پر
جونہی بچے بٹھاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
بڑے ہی چاٶ سے انگلی، تھما کر اپنے بچوں کو
جب چلنا سکھاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
جوانی میں قدم رکھ کر جب بیٹا باپ کے اپنے
برابر قد کے آتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
کرکے ہر بال کو چاندی، سونا وہ جب اپنی
بیٹی کا بناتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
کسی اونچےمقام پہ جب، بچہ باپ کے اپنے
نام سے جانا جاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
جوڑ کر سب جمع پونجی، اپنے خوں پسینے سے
نشیمن اک بناتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
Tariq Iqbal Haavi
پھل محنت کا پاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
تلخیاں سب زمانے کی، جھیل کر سختیاں دن بھر
جب واپس گھر کو آتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
بچے دوڑ کر ٹانگوں سے اسکی جب لپٹتے ہیں
تھکاوٹ بھول جاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
بہت لاڈ و محبت سے، تھکن سے چور کاندھوں پر
جونہی بچے بٹھاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
بڑے ہی چاٶ سے انگلی، تھما کر اپنے بچوں کو
جب چلنا سکھاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
جوانی میں قدم رکھ کر جب بیٹا باپ کے اپنے
برابر قد کے آتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
کرکے ہر بال کو چاندی، سونا وہ جب اپنی
بیٹی کا بناتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
کسی اونچےمقام پہ جب، بچہ باپ کے اپنے
نام سے جانا جاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
جوڑ کر سب جمع پونجی، اپنے خوں پسینے سے
نشیمن اک بناتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
Tariq Iqbal Haavi
سورج وانگوں مَچدا دِیوا سورج وانگوں مَچدا دِیوا
بالی رَکھ تُوں سچ دا دِیوا
حق دی راہ تَوں نہ گبھراویں
نَھیری نوں نہیں پَچدا دِیوا
مِدھیا جاندا پَیراں ہیٹھاں
بُجھیا مشکل بَچدا دِیوا
چانن وَنڈدا چار چفیرے
لَو وِچ تُخ کے نچدا دِیوا
ٹُٹ جاوے تے فیر نہیں جُڑدا
دِل ہوندا اے کچ دا دِیوا
اَزمائشاں دا ڈر نہیں حاوی
وِچ ہَنیرے جچدا دِیوا Tariq Iqbal Haavi
بالی رَکھ تُوں سچ دا دِیوا
حق دی راہ تَوں نہ گبھراویں
نَھیری نوں نہیں پَچدا دِیوا
مِدھیا جاندا پَیراں ہیٹھاں
بُجھیا مشکل بَچدا دِیوا
چانن وَنڈدا چار چفیرے
لَو وِچ تُخ کے نچدا دِیوا
ٹُٹ جاوے تے فیر نہیں جُڑدا
دِل ہوندا اے کچ دا دِیوا
اَزمائشاں دا ڈر نہیں حاوی
وِچ ہَنیرے جچدا دِیوا Tariq Iqbal Haavi
اُسی پُرنور سی شب کو، شبِ معراج کہتے ہیں سبحان اللہ کیا تھی اُس پار سے، اِس پار کی حسرت
کتنی شدت سے تھی محبوب کے دیدار کی حسرت
نہ ہو بیاں، کشش کیا تھی، نگاہِ التفات میں
بلایا عرش پر اُن کو، فرشتوں کی برات میں
بیٹھے براق پر گزرے جہاں سے بھی آقا پیارے
پڑھیں درود صف باندھے، ملائک و انبیاء سارے
کئے ساکت جہاں سارے، کوئی حرکت نہ ہو حائل
کہ بس محبوب ہی، محبوب کی جانب رہے مائل
کُھلے کائنات کے اُن پر، مقفل باب تھے جتنے
اٹھائے دو جہانوں پر، پڑے حجاب تھے جتنے
محبت کا تقاضا تھا، سفارش رد نہ ہونی تھی
جو رب سے مانگتے ملتا، کہ جس کی حد نہ ہونی تھی
خدا کے روبرو ہوکر، مانگا بھی تو کیا مانگا
میرے آقا نے ہر صورت، اُمت کا بھلا مانگا
بلائے خود خدا ملنے، جنہیں عرشِ معلیٰ پر
صفی اللہ، نجی اللہ، جنہیں سراج کہتے ہیں
وصلِ حقِ سبحانہ، جو شب ٹھہری اک سند
اُسی پُرنور سی شب کو، شبِ معراج کہتے ہیں
میرے شافع میرے آقا، خوف ہو کیونکر مولا
میں اُنکا اُمتی ٹھہرا، کروں سجدہ شکر مولا طارق اقبال حاوی
کتنی شدت سے تھی محبوب کے دیدار کی حسرت
نہ ہو بیاں، کشش کیا تھی، نگاہِ التفات میں
بلایا عرش پر اُن کو، فرشتوں کی برات میں
بیٹھے براق پر گزرے جہاں سے بھی آقا پیارے
پڑھیں درود صف باندھے، ملائک و انبیاء سارے
کئے ساکت جہاں سارے، کوئی حرکت نہ ہو حائل
کہ بس محبوب ہی، محبوب کی جانب رہے مائل
کُھلے کائنات کے اُن پر، مقفل باب تھے جتنے
اٹھائے دو جہانوں پر، پڑے حجاب تھے جتنے
محبت کا تقاضا تھا، سفارش رد نہ ہونی تھی
جو رب سے مانگتے ملتا، کہ جس کی حد نہ ہونی تھی
خدا کے روبرو ہوکر، مانگا بھی تو کیا مانگا
میرے آقا نے ہر صورت، اُمت کا بھلا مانگا
بلائے خود خدا ملنے، جنہیں عرشِ معلیٰ پر
صفی اللہ، نجی اللہ، جنہیں سراج کہتے ہیں
وصلِ حقِ سبحانہ، جو شب ٹھہری اک سند
اُسی پُرنور سی شب کو، شبِ معراج کہتے ہیں
میرے شافع میرے آقا، خوف ہو کیونکر مولا
میں اُنکا اُمتی ٹھہرا، کروں سجدہ شکر مولا طارق اقبال حاوی
بے لوث سجن جگ تے بس باپ ہی ہوندا اے ویلے ماڑے چنگے جیہڑا سدا نال کھلوندا اے
بے لوث سجن جگ تے بس باپ ہی ہوندا اے
گھربار چلاون لئی، کی کی نہیں کردا اے
سبھ دُکھ تکلیفاں نوں، ہس ہس جردا اے
لَکھ فکراں نے وچ زہنے، پر ہس کے وکھاٶندا اے
بے لوث سجن جگ تے، بس باپ ہی ہَوندا اے
پھڑ انگلی بچیاں دی، باپ چلن دی مت دیندا
دے کے سمجھاں زمانے نال، سانوں رَلن دی مت دیندا
خود ڈھل کے بچیاں نوں اوہ جینا سکھاٶندا اے
بے لوث سجن جگ تے، بس باپ ہی ہوندا اے
پیسے نوں کماون لئی، نال موت دے کھیہ جاندا
ہر جِھڑک زمانے دی، روٹی لئی سہہ جاندا
سانوں خوشیاں دیون لئی، دُکھ اپنے لکوندا اے
بے لوث سجن جگ تے، بس باپ ہی ہوندا اے
باپاں نال ہمتاں نے، باپاں نال سُکھ ہوندے
ماں ٹھنڈی چھاں اے جے، پیو پھلویں رُکھ ہوندے
سر سایہ ایہنا دا، گھر سورگ بناٶندا اے
بے لوث سجن جگ تے، بس باپ ہی ہوندا اے
لِکھ سکدا نہیں کُجھ حاوی، گھٹ قلم دی سکت اے
زرا سمجھ تے سہی بندیا، کی باپ دی عظمت اے
رب شکلے آدم دی پہلاں باپ بناٶندا اے
بے لوث سجن جگ تے، بس باپ ہی ہوندا اے طارق اقبال حاوی
بے لوث سجن جگ تے بس باپ ہی ہوندا اے
گھربار چلاون لئی، کی کی نہیں کردا اے
سبھ دُکھ تکلیفاں نوں، ہس ہس جردا اے
لَکھ فکراں نے وچ زہنے، پر ہس کے وکھاٶندا اے
بے لوث سجن جگ تے، بس باپ ہی ہَوندا اے
پھڑ انگلی بچیاں دی، باپ چلن دی مت دیندا
دے کے سمجھاں زمانے نال، سانوں رَلن دی مت دیندا
خود ڈھل کے بچیاں نوں اوہ جینا سکھاٶندا اے
بے لوث سجن جگ تے، بس باپ ہی ہوندا اے
پیسے نوں کماون لئی، نال موت دے کھیہ جاندا
ہر جِھڑک زمانے دی، روٹی لئی سہہ جاندا
سانوں خوشیاں دیون لئی، دُکھ اپنے لکوندا اے
بے لوث سجن جگ تے، بس باپ ہی ہوندا اے
باپاں نال ہمتاں نے، باپاں نال سُکھ ہوندے
ماں ٹھنڈی چھاں اے جے، پیو پھلویں رُکھ ہوندے
سر سایہ ایہنا دا، گھر سورگ بناٶندا اے
بے لوث سجن جگ تے، بس باپ ہی ہوندا اے
لِکھ سکدا نہیں کُجھ حاوی، گھٹ قلم دی سکت اے
زرا سمجھ تے سہی بندیا، کی باپ دی عظمت اے
رب شکلے آدم دی پہلاں باپ بناٶندا اے
بے لوث سجن جگ تے، بس باپ ہی ہوندا اے طارق اقبال حاوی
جلا کر نفس کو جگنو، اندھیرا دُور کرتا ہے وجود ہے ناتواں، ہمت مگر ضرور کرتا ہے
جلا کر نفس کو جگنو، اندھیرا دُور کرتا ہے
سفرِ تیرگی میں اِک، بھلی اُمید ہے جگنو
ظلمت کے نگر میں، ساعتِ سعید ہے جگنو
کہنے کو یہ جگنو اِک، بہت حقیر پیکر ہے
قریب اہلِ نظر کے یہ، مگر فقیر پیکر ہے
سراپا نور ہے فطرت، امن پیغام جگنو کا
لیا جاتا ہے اچھوں میں، سدا ہی نام جگنو کا
اگرچہ ساتھ ہیں رہتے، مگر مسئلہ نہیں ہوتا
کسی جگنو کو جگنو سے، کوئی خطرہ نہیں ہوتا
اچھی یاد کا دل کو، خوشی دینا بھی جگنو ہے
کسی روتے کے چہرے پر، ہنسی دینا بھی جگنو ہے
ہے چمک و بھڑک فطرت، مگر ہے بے ضرر ہستی
نہیں شعلہ مزاجی ہے، یوں شعلہ فام ہو کر بھی
کسی کو رنج نہ پہنچے، نہ کچھ کوئی اذیت ہو
جہاں میں ہر بشر اے کاش کہ جگنو طبیعت ہو
قلم کو بھر کے جگنو سے، ہے حاوی اتنا بس لکھتا
اگر ہر سوچ ہو جگنو، تو جنت سی ہو یہ دُنیا طارق اقبال حاوی
جلا کر نفس کو جگنو، اندھیرا دُور کرتا ہے
سفرِ تیرگی میں اِک، بھلی اُمید ہے جگنو
ظلمت کے نگر میں، ساعتِ سعید ہے جگنو
کہنے کو یہ جگنو اِک، بہت حقیر پیکر ہے
قریب اہلِ نظر کے یہ، مگر فقیر پیکر ہے
سراپا نور ہے فطرت، امن پیغام جگنو کا
لیا جاتا ہے اچھوں میں، سدا ہی نام جگنو کا
اگرچہ ساتھ ہیں رہتے، مگر مسئلہ نہیں ہوتا
کسی جگنو کو جگنو سے، کوئی خطرہ نہیں ہوتا
اچھی یاد کا دل کو، خوشی دینا بھی جگنو ہے
کسی روتے کے چہرے پر، ہنسی دینا بھی جگنو ہے
ہے چمک و بھڑک فطرت، مگر ہے بے ضرر ہستی
نہیں شعلہ مزاجی ہے، یوں شعلہ فام ہو کر بھی
کسی کو رنج نہ پہنچے، نہ کچھ کوئی اذیت ہو
جہاں میں ہر بشر اے کاش کہ جگنو طبیعت ہو
قلم کو بھر کے جگنو سے، ہے حاوی اتنا بس لکھتا
اگر ہر سوچ ہو جگنو، تو جنت سی ہو یہ دُنیا طارق اقبال حاوی
کس سَمت چل پڑی ہے خدائی میرے خدا کس سَمت چل پڑی ہے خدائی میرے خدا
نفرت ہی دے رہی ہے دِکھائی میرے خدا
امن و اماں سے خالی دُنیا کیوں ہو گئی
تُو نے تَو نہ تھی ایسی بنائی میرے خدا
ذہنوں پہ اب سوار بس فکرِ معاش ہے
مِل جائے کاش بھوک سے رہائی میرے خدا
جسکا بھی جتنا بھی یہاں چلتا ہے ذور تَو
قیامت ہے ہر اُس شخص نے ڈھائی میرے خدا
بِنتِ حوا کی آہیں جو دامن بچاتے نکلیں
تجھے بھی تو دیتی ہونگی سُنائی میرے خدا
فِتنہ و شر ہے کیونکر اِتنا عروج پر
دَبتی کیوں جا رہی ہے بھلائی میرے خدا
کر درگزر خطائیں، ہم پہ رحم ہو مولا
کردے ختم فضائیں وَبائی میرے خدا
تیری یاد سے ہیں غافل تبھی کچھ سکُوں نہیں ہے
لو بھی تَو نہ تجھ سے ہم نے لگائی میرے خدا
ہدائیت ہمیں عطا کر، جو مکمل شفاف کر دے
غفلت دِلوں پہ جو ہے چھائی میرے خدا طارق اقبال حاوی
نفرت ہی دے رہی ہے دِکھائی میرے خدا
امن و اماں سے خالی دُنیا کیوں ہو گئی
تُو نے تَو نہ تھی ایسی بنائی میرے خدا
ذہنوں پہ اب سوار بس فکرِ معاش ہے
مِل جائے کاش بھوک سے رہائی میرے خدا
جسکا بھی جتنا بھی یہاں چلتا ہے ذور تَو
قیامت ہے ہر اُس شخص نے ڈھائی میرے خدا
بِنتِ حوا کی آہیں جو دامن بچاتے نکلیں
تجھے بھی تو دیتی ہونگی سُنائی میرے خدا
فِتنہ و شر ہے کیونکر اِتنا عروج پر
دَبتی کیوں جا رہی ہے بھلائی میرے خدا
کر درگزر خطائیں، ہم پہ رحم ہو مولا
کردے ختم فضائیں وَبائی میرے خدا
تیری یاد سے ہیں غافل تبھی کچھ سکُوں نہیں ہے
لو بھی تَو نہ تجھ سے ہم نے لگائی میرے خدا
ہدائیت ہمیں عطا کر، جو مکمل شفاف کر دے
غفلت دِلوں پہ جو ہے چھائی میرے خدا طارق اقبال حاوی
چُسکے لے کے چا پیندا واں سنگت بہہ کے چا پیندا واں
چُسکے لے کے چا پیندا واں
اُٹھدا بہندا، چلدا پِھردا
میں رہ رہ کے چا پیندا واں
مُشک تیری میرے سینے اُترے
جُوٹھی لے کے چا پیندا واں
دارُو ورگا کم جے کر دی
غم وچ ڈیہہ کے چا پیندا واں
وچ پردیسے یاد یاراں دی
دوری سہہ کے چا پیندا واں
اگلی وار اوہ نال پیوے گی
دل نوں کہہ کے چا پیندا واں
غزل جدوں کوئی لکھنی ہووے
کلھیاں بہہ کے چا پیندا واں طارق اقبال حاوی
چُسکے لے کے چا پیندا واں
اُٹھدا بہندا، چلدا پِھردا
میں رہ رہ کے چا پیندا واں
مُشک تیری میرے سینے اُترے
جُوٹھی لے کے چا پیندا واں
دارُو ورگا کم جے کر دی
غم وچ ڈیہہ کے چا پیندا واں
وچ پردیسے یاد یاراں دی
دوری سہہ کے چا پیندا واں
اگلی وار اوہ نال پیوے گی
دل نوں کہہ کے چا پیندا واں
غزل جدوں کوئی لکھنی ہووے
کلھیاں بہہ کے چا پیندا واں طارق اقبال حاوی