Poetries by Areeba Khan
ضروری ہے بہار کو طلب یے برساتوں کی
مگر پھولوں کو سورج بھی ضروری ہے
یہ پہاڑ برف کی چادر کیوں اوڑھ رہے ہیں
پیاسی زمیں کو تو پانی ہی ضروری ہے
رنگوں میں یہ پھیکا پن کیوں ہے آخر
ان رنگوں سے الجھنا بھی ضروری ہے
سحر تو ایک استعارہ ہے مگر
دیدار یار میں کھونا بھی ضروری ہے
تم دیکھ لو آسماں یہ اریبہ
اڑنے کے لیے تو حوصلہ بھی ضروری ہے اریبہ خان
مگر پھولوں کو سورج بھی ضروری ہے
یہ پہاڑ برف کی چادر کیوں اوڑھ رہے ہیں
پیاسی زمیں کو تو پانی ہی ضروری ہے
رنگوں میں یہ پھیکا پن کیوں ہے آخر
ان رنگوں سے الجھنا بھی ضروری ہے
سحر تو ایک استعارہ ہے مگر
دیدار یار میں کھونا بھی ضروری ہے
تم دیکھ لو آسماں یہ اریبہ
اڑنے کے لیے تو حوصلہ بھی ضروری ہے اریبہ خان
بڑے دنوں بعد آج بہکے خیال آئے ہیں بڑے دنوں بعد آج بہکے خیال آئے ہیں،
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں،
بہت دن گزرے تمہیں دیکھا نہیں میں نے،
دور ہوگئے شاید یہ جانا نہیں میں نے،
تم خوش ہو کیا بہت اُسکے ساتھ؟
میری یاد آتی بھی ہے کیا تم کو؟
بس ایسے ہی کچھ سوال ہیں میرے،
اور انھیں کے خیال آئے ہیں،
یاد ہے تمہیں کیا وہ نومبر کی آخری رات؟
میری سرد و تنہا رات،
جب بندھ گئے تھے تم اُسکے ساتھ،
کچھ یاد ہے بھلا؟
دیں تو تب بھی تمہیں دعائیں تھیں میں نے،
کہ خوش رہو، آباد رہو مگر پھر کیوں؟
بڑے دنوں بعد آج بہکے خیال آئے ہیں،
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں،
کر تو دیا تھا تمہیں خوشی سے آلو داع میں نے،
رابطہ نہ رکھنے کا تم سے سوچا بھی تھا میں نے،
کر دیے تھے کچھ پنّوں میں قید قصّے تمہارے،
کچھ بے نام ہی اور کچھ نام تمہارے،
مگر پھر کیوں؟
بڑے دنوں بعد آج بہکے خیال آئے ہیں،
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں۔ Areeba Khan
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں،
بہت دن گزرے تمہیں دیکھا نہیں میں نے،
دور ہوگئے شاید یہ جانا نہیں میں نے،
تم خوش ہو کیا بہت اُسکے ساتھ؟
میری یاد آتی بھی ہے کیا تم کو؟
بس ایسے ہی کچھ سوال ہیں میرے،
اور انھیں کے خیال آئے ہیں،
یاد ہے تمہیں کیا وہ نومبر کی آخری رات؟
میری سرد و تنہا رات،
جب بندھ گئے تھے تم اُسکے ساتھ،
کچھ یاد ہے بھلا؟
دیں تو تب بھی تمہیں دعائیں تھیں میں نے،
کہ خوش رہو، آباد رہو مگر پھر کیوں؟
بڑے دنوں بعد آج بہکے خیال آئے ہیں،
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں،
کر تو دیا تھا تمہیں خوشی سے آلو داع میں نے،
رابطہ نہ رکھنے کا تم سے سوچا بھی تھا میں نے،
کر دیے تھے کچھ پنّوں میں قید قصّے تمہارے،
کچھ بے نام ہی اور کچھ نام تمہارے،
مگر پھر کیوں؟
بڑے دنوں بعد آج بہکے خیال آئے ہیں،
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں۔ Areeba Khan
بہکے خیال بڑے دنوں بعد آج بہکے خیال آئے ہیں
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں
بہت دن گزرے تمہیں دیکھا نہیں میں نے
دور ہوگئے شاید یہ جانا نہیں میں نے
تم خوش ہو کیا بہت اُسکے ساتھ؟
میری یاد آتی بھی ہے کیا تم کو؟
بس ایسے ہی کچھ سوال ہیں میرے
اور انھیں کے خیال آئے ہیں،
یاد ہے تمہیں کیا وہ نومبر کی آخری رات؟
میری سرد و تنہا رات
جب بندھ گئے تھے تم اُسکے ساتھ
کچھ یاد ہے بھلا؟
دیں تو تب بھی تمہیں دعائیں تھیں میں نے
کہ خوش رہو، آباد رہو مگر پھر کیوں؟
بڑے دنوں بعد آج بہکے خیال آئے ہیں
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں
کر تو دیا تھا تمہیں خوشی سے آلو داع میں نے
رابطہ نہ رکھنے کا تم سے سوچا بھی تھا میں نے
کر دیے تھے کچھ پنّوں میں قید قصّے تمہارے،
کچھ بے نام ہی اور کچھ نام تمہارے
مگر پھر کیوں؟
بڑے دنوں بعد آج بہکے خیال آئے ہیں
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں Areeba Khan
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں
بہت دن گزرے تمہیں دیکھا نہیں میں نے
دور ہوگئے شاید یہ جانا نہیں میں نے
تم خوش ہو کیا بہت اُسکے ساتھ؟
میری یاد آتی بھی ہے کیا تم کو؟
بس ایسے ہی کچھ سوال ہیں میرے
اور انھیں کے خیال آئے ہیں،
یاد ہے تمہیں کیا وہ نومبر کی آخری رات؟
میری سرد و تنہا رات
جب بندھ گئے تھے تم اُسکے ساتھ
کچھ یاد ہے بھلا؟
دیں تو تب بھی تمہیں دعائیں تھیں میں نے
کہ خوش رہو، آباد رہو مگر پھر کیوں؟
بڑے دنوں بعد آج بہکے خیال آئے ہیں
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں
کر تو دیا تھا تمہیں خوشی سے آلو داع میں نے
رابطہ نہ رکھنے کا تم سے سوچا بھی تھا میں نے
کر دیے تھے کچھ پنّوں میں قید قصّے تمہارے،
کچھ بے نام ہی اور کچھ نام تمہارے
مگر پھر کیوں؟
بڑے دنوں بعد آج بہکے خیال آئے ہیں
کھڑکیوں کے پٹ کھولے تمہاری راہ دیکھنے آئے ہیں Areeba Khan
گلِ فیضان اک گل مہکا ہے گلِ فیضان میں
چاند بھی چمکا ہے پوری آب و تاب سے
سدائیں آئی ہیں جشنِ بہاروں سے
اب آؤ چلیں ساتھ کہ پیغامِ عشق آیا ہے
ذرا ٹھرو تو سہی
میں سج سنور تو لوں
پھولوں کی چادر تو اوڑھ لوں
کہ ادھر سیج سجا ہمارا ہی تو ہے
اُن پنکھڑیوں سے گزرنا ہمیں ہی تو ہے
تم تھام کے میرا ہاتھ کہنا ” قبول “ ہے
کہ ملنے سے ہم دلوں کے عرش بھی جھوم اُٹھے
وہ اک گل مہکا ہے آج گلِ فیضان میں
اور چاند بھی چمکا ہے پھر پوری آب و تاب سے Areeba Khan
چاند بھی چمکا ہے پوری آب و تاب سے
سدائیں آئی ہیں جشنِ بہاروں سے
اب آؤ چلیں ساتھ کہ پیغامِ عشق آیا ہے
ذرا ٹھرو تو سہی
میں سج سنور تو لوں
پھولوں کی چادر تو اوڑھ لوں
کہ ادھر سیج سجا ہمارا ہی تو ہے
اُن پنکھڑیوں سے گزرنا ہمیں ہی تو ہے
تم تھام کے میرا ہاتھ کہنا ” قبول “ ہے
کہ ملنے سے ہم دلوں کے عرش بھی جھوم اُٹھے
وہ اک گل مہکا ہے آج گلِ فیضان میں
اور چاند بھی چمکا ہے پھر پوری آب و تاب سے Areeba Khan
چاہوں تو چاہوں تو وہ میرا ہے
کسی اور کو حق پھر کیوں دیا جائے؟
چاہوں تو ہر لمحہ میرا ہے
کسی اور کو گزارنے کا حق پھر کیوں دیا جائے؟
چاہوں تو اُسکا ہر عکس میرا ہے
کسی اور کو آئینہ تھام نے کا حق پھر کیوں دیا جائے؟
چاہوں تو ہر رشتہ اس سے میرا ہے
کسی اور کو اس میں بندھ جانے کا حق پھر کیوں دیا جائے؟
چاہوں تو اُسکی ہر منزل میری ہے
کسی اور کو اُس رستے پر چلنے کا حق پھر کیوں دیا جائے؟
چاہوں تو کرلوں میں اُسکو حاصل
کسی اور کو لطف اُٹھانے کا حق پھر کیوں دیا جائے؟ Areeba Khan
کسی اور کو حق پھر کیوں دیا جائے؟
چاہوں تو ہر لمحہ میرا ہے
کسی اور کو گزارنے کا حق پھر کیوں دیا جائے؟
چاہوں تو اُسکا ہر عکس میرا ہے
کسی اور کو آئینہ تھام نے کا حق پھر کیوں دیا جائے؟
چاہوں تو ہر رشتہ اس سے میرا ہے
کسی اور کو اس میں بندھ جانے کا حق پھر کیوں دیا جائے؟
چاہوں تو اُسکی ہر منزل میری ہے
کسی اور کو اُس رستے پر چلنے کا حق پھر کیوں دیا جائے؟
چاہوں تو کرلوں میں اُسکو حاصل
کسی اور کو لطف اُٹھانے کا حق پھر کیوں دیا جائے؟ Areeba Khan
ہم تم نہ تم کچھ بول سکے
نہ میں نے کچھ سناؔ چاہ
ہمارا یہ رشتہ اک خاموش سا صحرا بن بیٹھ
کیا وجہ ٹھری تھی جو یہ نوبت آئ؟
معلوم نہیں شاید نفرتوں کے ڈھیر نے یہ آگ لگائ
باتوں کو درگزر کر کہ مل لیا کرتے تھے ہم کبھی
آج اک عرصہ ہو چلا ہے نہ میں نے کبھی بلایا نہ تم نے صدا لگائ
کچھ یادیں ہیں تمہاری میرے پاس
آگر ہو سکے تو لےجاؤ انھیں اپنے ساتھ
راستے اب اک نہیں ہمارے
کبھی ساتھ چلے تھے ہم تم سہارے
بکھر گئے ہیں ہم موتیاں بن کہ
نہ تم چن سکے اور نہ میں نے سمٹنا چاہ
کیونکہ ہمارا یہ رشتہ اک خاموش سا صحرا بن بیٹھا
Areeba Khan
نہ میں نے کچھ سناؔ چاہ
ہمارا یہ رشتہ اک خاموش سا صحرا بن بیٹھ
کیا وجہ ٹھری تھی جو یہ نوبت آئ؟
معلوم نہیں شاید نفرتوں کے ڈھیر نے یہ آگ لگائ
باتوں کو درگزر کر کہ مل لیا کرتے تھے ہم کبھی
آج اک عرصہ ہو چلا ہے نہ میں نے کبھی بلایا نہ تم نے صدا لگائ
کچھ یادیں ہیں تمہاری میرے پاس
آگر ہو سکے تو لےجاؤ انھیں اپنے ساتھ
راستے اب اک نہیں ہمارے
کبھی ساتھ چلے تھے ہم تم سہارے
بکھر گئے ہیں ہم موتیاں بن کہ
نہ تم چن سکے اور نہ میں نے سمٹنا چاہ
کیونکہ ہمارا یہ رشتہ اک خاموش سا صحرا بن بیٹھا
Areeba Khan
پاک دامن وہ تڑپتی بلبلاتی گواہیاں دیتی رہی
حوؔا کی بیٹی مگر پھر پاک دامن نہ رہی
محبت میں کر بیٹھی وہ کئی گناہ
پاک نکاح میں آکر بھی وہ بے گناہ نہ ہوئی
سزا دیتا رہا ہے اُسکا شوہر اُسے دن بہ دن
اور وہ تڑپتی بلبلاتی گواہیاں دیتی رہی
محبت کے نام پر اُسکے وجود سے کھیلے تھے وہ لوگ
حوؔا کی بیٹی مگر پھر پاک دامن نہ رہی Areeba Khan
حوؔا کی بیٹی مگر پھر پاک دامن نہ رہی
محبت میں کر بیٹھی وہ کئی گناہ
پاک نکاح میں آکر بھی وہ بے گناہ نہ ہوئی
سزا دیتا رہا ہے اُسکا شوہر اُسے دن بہ دن
اور وہ تڑپتی بلبلاتی گواہیاں دیتی رہی
محبت کے نام پر اُسکے وجود سے کھیلے تھے وہ لوگ
حوؔا کی بیٹی مگر پھر پاک دامن نہ رہی Areeba Khan
یہ پودے یہ جو پودے تمہارے باغ میں ہیں
یہ لگتے کتنے اچھے ہیں
ان پھولوں کا کیا راز ہے
،جو چادر اوڑھے کھڑے ہیں
اس ڈالی پر جو بیٹھے ہیں
کتنے سنہرے پرندے ہیں
اس گلشن کی ہوا میں مانو
کچھ تازے پھول بکھرے ہیں
یہ جو پودے تمہارے باغ میں ہیں
یہ لگتے کتنے اچھے ہیں
اُس آبشار کے گرتے پانی کے
سب قطرے میٹھے میٹھے ہیں
اس گلشن کی ہریالی میں
سب ہی مہکے بہکے ہیں
یہ جو پودے تمہارے باغ میں ہیں
یہ لگتے کتنے اچھے ہیں Areeba Khan
یہ لگتے کتنے اچھے ہیں
ان پھولوں کا کیا راز ہے
،جو چادر اوڑھے کھڑے ہیں
اس ڈالی پر جو بیٹھے ہیں
کتنے سنہرے پرندے ہیں
اس گلشن کی ہوا میں مانو
کچھ تازے پھول بکھرے ہیں
یہ جو پودے تمہارے باغ میں ہیں
یہ لگتے کتنے اچھے ہیں
اُس آبشار کے گرتے پانی کے
سب قطرے میٹھے میٹھے ہیں
اس گلشن کی ہریالی میں
سب ہی مہکے بہکے ہیں
یہ جو پودے تمہارے باغ میں ہیں
یہ لگتے کتنے اچھے ہیں Areeba Khan
اک ننھی سی چڑیا میں ٹہری اک ننھی سی چڑیا
پروں کو تولے اُڑان بھرنے
ہوا کے جھوکوں سے پار ہوں ایسے
کمان سے تیر نکلا ہو جیسے
بارش کے موسم میں دیوانی پھروں
بادلوں کی آڑ میں غوطہ لگاؤں
بادلوں کی کشتی میں سوار ہوکر
سترنگی میں ڈوب کہ رنگین ہوجاؤں
پتجھڑ کا جب موسم آۓ
میں ٹہنیاں چن کر محل بناؤں
بہار میں گل کی پتیوں سے
میں اپنا آنچل سنہرا سجاؤں
آۓ جو طوفاں تو دل تھمے میرا
میں حوصلوں کو دوں اُڑان پھر تولے پروں کو Areeba Khan
پروں کو تولے اُڑان بھرنے
ہوا کے جھوکوں سے پار ہوں ایسے
کمان سے تیر نکلا ہو جیسے
بارش کے موسم میں دیوانی پھروں
بادلوں کی آڑ میں غوطہ لگاؤں
بادلوں کی کشتی میں سوار ہوکر
سترنگی میں ڈوب کہ رنگین ہوجاؤں
پتجھڑ کا جب موسم آۓ
میں ٹہنیاں چن کر محل بناؤں
بہار میں گل کی پتیوں سے
میں اپنا آنچل سنہرا سجاؤں
آۓ جو طوفاں تو دل تھمے میرا
میں حوصلوں کو دوں اُڑان پھر تولے پروں کو Areeba Khan
میں ٹھری اک ننھی سی چریا میں ٹہری اک ننھی سی چریا،
پروں کو تولے اُڑان بھرنے،
ہوا کے جھوکوں سے پار ہوں ایسے،
کمان سے تیر نکلا ہو جیسے،
بارش کے موسم میں دیوانی پھروں،
بادلوں کی آڑ میں غوطہ لگاؤں،
بادلوں کی کشتی میں سوار ہوکر،
سترنگی میں ڈوب کہ رنگین ہوجاؤں،
پتجھڑ کا جب موسم آۓ،
میں ٹہنیاں چن کر محل بناؤں،
بہار میں گل کی پتیوں سے ،
میں اپنا آنچل سنہرا سجاؤں،
آۓ جو طوفاں تو دل تھمے میرا،
میں حوصلوں کو دوں اُڑان پھر تولے پروں کو۔ Areeba Khan
پروں کو تولے اُڑان بھرنے،
ہوا کے جھوکوں سے پار ہوں ایسے،
کمان سے تیر نکلا ہو جیسے،
بارش کے موسم میں دیوانی پھروں،
بادلوں کی آڑ میں غوطہ لگاؤں،
بادلوں کی کشتی میں سوار ہوکر،
سترنگی میں ڈوب کہ رنگین ہوجاؤں،
پتجھڑ کا جب موسم آۓ،
میں ٹہنیاں چن کر محل بناؤں،
بہار میں گل کی پتیوں سے ،
میں اپنا آنچل سنہرا سجاؤں،
آۓ جو طوفاں تو دل تھمے میرا،
میں حوصلوں کو دوں اُڑان پھر تولے پروں کو۔ Areeba Khan