آئِینہ ہے، مَیں ہوں
بات چل رہی ہے
زیست کھا کے ٹھوکر
پھر سنبھل رہی ہے
داغِ دل کی لَو سے
روح جل رہی ہے
یاد کا سفر ہے
“رات ڈھل رہی ہے”
ہر قدم اُداسی
ساتھ چل رہی ہے
اِک حسین خواہش
پھر مچل رہی ہے
مِٹ رہی ہے ہستی
عمر ڈھل رہی ہے
** ناصر کاظمی کی زمین میں ایک غزل