آج بھی عہدِ محبت میں کدھر جاتی ہوں
لے کے دریا جو سمندر میں اتر جاتی ہوں
زندگی عشق میں ہجرت کے حوالے کرکے
اپنی ہی خاک اڑاتی ہوں بکھر جاتی ہوں
چاند کے ساتھ تعلق ہے پرانا لیکن
روشنی بانٹ کے دنیا کو گزر جاتی ہوں
محاذِ زیست پہ تنہا ہوں مگر دیکھئے ہیں
ساتھ چلتی ہے یہ دنیا میں کدھر جاتی ہوں
اپنے سب عیب چھپاتی ہوں تری آنکھ میں پھر
تیری نظروں سے سبھی لے کر ہنر جاتی ہوں
میں نے بند آنکھوں سے تجدیدِ محبت کر لی
زندگی چھوڑ کے اب موت کے گھر جاتی ہوں
یہ ترا حسن محبت ہے مری جاں وشمہ
تیرے دربار میں آتی ہوں ،نکھر جاتی ہوں