یہ جو قطرے گرتے دکھتے ہیں
یہ جو دکھتے پانی جیسے ہیں
یہ مجھ کو دھوکا دیتے ہیں
اور تجھ کو دھوکا دیتے ہیں
کہ پانی جیسے دکھتے ہیں
جبکہ یہ پانی ہیں ہی نہیں
یہ تو محلول ہے زخموں کا
کچھ گزرے خود پہ دردوں کا
کچھ کرب کے گزرے لمحوں کا
کچھ بھیگی سہمی یادوں کا
کبھی اپنوں کے بدلنے کا
کبھی رشتوں کے مکرنے کا
کبھی تلخ کہی سی باتوں کا
کبھی شیریں جیسے لہجوں کا
کبھی ان کے روٹھ کے جانے کا
کبھی پھر سے لوٹ کے آنے کا
یہ قطرے مجھ پر لازم ہیں
جو آنکھوں میں ہی رہتے ہیں
اور کبھی کبھی یہ بہتے ہیں
یہ جو دکھتے پانی جیسے ہیں
جبکہ یہ پانی ہیں ہی نہیں
انہیں لوگ فریبی کہتے ہیں
ہم دوست قریبی کہتے ہیں
کیونکہ یہ میرے اپنے ہیں
جن میں پنہاں کچھ سپنے ہیں
میں ان سے ناطہ کیا توڑوں
کہ مجھ میں ہی تو رہتے ہیں
جنہیں لوگ دشمن کہتے ہیں
اور نام سے آنسو کہتے ہیں