آپ کی آنکھ سے گہرا ہے مری روح کا زخم
آپ کیا سوچ سکیں گے مری تنہائی کو
میں تو دم توڑ رہا تھا مگر افسردہ حیات
خود چلی آئی مری حوصلہ افزائی کو
لذت غم کے سوا تیری نگاہوں کے بغیر
کون سمجھا ہے مرے زخم کی گہرائی کو
میں بڑھاؤں گا تری شہرت خوشبو کا نکھار
تو دعا دے مرے افسانۂ رسوائی کو
وہ تو یوں کہیے کہ اک قوس قزح پھیل گئی
ورنہ میں بھول گیا تھا تری انگڑائی کو