آہن گروں کے شہر کے نازک مزاج لوگ
حدت بڑھی تو موم کی صورت پگھل گئے
بنتے تھے سورماء جو صفت شیر کی لیئے
کڑکیں جو بجلیاں تو وہ ضیغم دہل گئے
جن کو غرور آج شجاعت پہ ہے وہ کل
جانیں بچا کے اپنی وطن سے نکل گئے
لہجے میں طمطراق و رعونت جو آج ہے
کل التجاء و بھیک کی ذلت میں ڈھل گئے
جو رات کے اندھیروں میں جدہ کا رخ کیئے
منہ پر وہ بزدلی کی بھی کا لک تھے مل گئے
منظر مجھے وہ یاد ہیں جب شہر تم میرا
طاقت کے اندھے زعم میں آکر کچل گئے
لاشیں لہو لہاں تھیں گلا بو ں کی ہر طرف
شاخوں سے جن کو توڑ کر قاتل مسل گئے
نفرت تھی جن کے ذہن میں میرے خلاف کل
ظلمت چھٹی تو خود ہی اجالوں سے مل گئے
جن کو میرے وجود کا انکا ر ہی رہا
اقرار کر کے آج وہ منکر بدل گئے
جن کو مٹا نا چاہا تھا ظلمت کے زور پر
قائد کی فکر نو سے وہ سورج سنبل گئے
دب نہ سکیں گے ظلم کی طاقت سے یہ اشہر
جذبے بغاوتوں کے جو دل میں مجل گئے