آ گیا پھر رمضاں کیا ہوگا
ہائے اے پیر مغاں کیا ہوگا
باغ جنت میں سماں کیا ہوگا
تو نہیں جب تو وہاں کیا ہوگا
خوش وہ ہوتا ہے مرے نالوں سے
اور انداز فغاں کیا ہوگا
دور کی راہ ہے ساماں ہیں بڑے
اتنی مہلت ہے کہاں کیا ہوگا
دیکھ لو رنگ پریدہ کو مرے
دل جلے گا تو دھواں کیا ہوگا
ہوگا بس ایک نگہ میں جو تمام
وہ بہ حسرت نگراں کیا ہوگا
ہم نے مانا کہ ملا ملک جہاں
نہ رہے ہم تو جہاں کیا ہوگا
مر کے جب خاک میں ملنا ٹھہرا
پھر یہ تربت کا نشاں کیا ہوگا
جس طرح دل ہوا ٹکڑے از خود
چاک اس طرح کتاں کیا ہوگا
یا ترا ذکر ہے یا نام ترا
اور پھر ورد زباں کیا ہوگا
عشق سے باز نہ آنا حیدرؔ
راز ہونے دے عیاں کیا ہوگا