کوئی بغیر آ نسووں کے رویا ہے کبھی
پاکر بھی سب کچھ کسی نے کھویا ہے کبھی
روشنی میں اندھیرا ہے تو کیا بات ہے
ہم نے تو راتوں کو درد پرویا ہے کبھی
درد کی شدت تو پوچھتے ہیں ایسے
جیسے اسے خاک نے چھویا ہے کبھی
مرض سے نجات کیوں چا ہتے ہیں لوگ
اسی مرض نے نجات کا بیج بویا ہے کبھی
جوں جوں نیند ملی قبول کر لی ہم نے
!ورنہ کوئی شاعر سکون سے سویا ہے کبھی