Add Poetry

اس قوم سے ہنسنا چھوٹ گیا

Poet: Khalid Mahmood By: Khalid Mahmood, Abha

 یہ کیسا موسم آیا ہے
یہ کیسا بادل چھایا ہے
ہر موڑ پہ ظلم کا سایا ہے
جیسے کوئی سب کچھ لوٹ گیا
اس قوم سے ہنسنا چھوٹ گیا

اسے مہنگائی مار گئی
بجلی کی جدائی مار گئی
آپس کی لڑائی مار گئی
پٹرول سے ناطہ ٹوٹ گیا
اس قوم سے ہنسنا چھوٹ گیا

اس قوم کو لیڈر مل نہ سکے
جو زخم ملے وہ سل نہ سکے
کردار کے پودے کھل نہ سکے
اقبال کا سپنا ٹوٹ گیا
اس قوم سے ہنسنا چھوٹ گیا

سب پیار کے وعدے توڑ دئیے
نفرت کے لبادے اوڑھ دئیے
عظمت کے ارادے چھوڑ دئیے
اس قوم کا دل ہی ٹوٹ گیا
اس قوم سے ہنسنا چھوٹ گیا

آٹا چاول چینی دال
ان سب کا ملنا محال
سمجھ میں آتی نہیں یہ چال
صبر کا دامن چھوٹ گیا
اس قوم سے ہنسنا چھوٹ گیا

پنجابی سندھی اور پٹھان
بٹا یے ان میں پاکستان
یکجہتی کا یے فقدان
پیار کا دھاگا ٹوٹ گیا
اس قوم سے ہنسنا چھوٹ گیا

روٹی کپڑ ا اور مکان
سنتے سنتے پک گئے کان
کتنا ارزاں ہے انسان
آس کا سورج ڈوب گیا
اس قوم سے ہنسنا چھوٹ گیا
 

Rate it:
Views: 467
13 Apr, 2011
More Political Poetry
یہ وطن، یہ ہم ہر ذہن خستہ حال ہے یہ وطن
کہ تجھے ہم نے بنا دیا ہے تماشئہ سُخن
بھول گۓ سب وہ مقصد وہ عہدوفا
جس نے بنایا ہمیں ایک قوم، ایک صدا
یہ زمین جوایک کا نہیں، ہے سب کا مقام
پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان، ایک ہی ہے ہمارا نام
پُتلی تماشا ہے اصل بازی گروں کا یہ نظام
چھین لیتے ہیں سب کچھ جو نہ جھکیں ان کے سلام
حکمران سے لے کر سب کا یہی حال
فکر ہے تو بس جاگیر کی، نہ کوئی قومی خیال
ہر قبیلے میں بٹی قوم، زبانوں میں الجھی سوچ
کہ ہر ایک کہتا ہے
یہ خطہ میرا ہے، جیسے باقی سب کچھ ہو دوچ
نہ کبھی ہم اک زبان ہوۓ، نہ دل سے دل، نہ اک جان
ہم نے خود ہی توڑا ہے انقلاب کا ہر امکان
ہر 14 اگست میں کیوں نہ کہے" ہم آزاد ہیں، زندہ باد ہیں"
جب خود ظلم کے عادی ہو، غلامی پہ راضی ہو؟
اگر صرف تین بنیادی حق بھی نہ دے-
تعلیم، رہائش، اور تحفظ، ہر ایک کو، حکومت
تو پھر کس بات کی صدارت؟ کس بات کی وزارت؟
نہ یہ تخت تیرا تھا، نہ یہ وطن تیرا جائیداد
پھر کیوں ہم پر تمہیں مسلط کیا گیا بن ارشاد؟
سب قصوروار ہے
نہ صرف حکومت، نہ صرف عوام، سب کا کردار ہے
ہاتھوں سے اجاڑا ہے یہ چمن-
نہ کوئی اور آیا، نہ کوئی دوشمن، ہم ہی ہے وہ ظالم بن
خدارا! بانٹو نہ خود کو قوموں میں، مذاہب میں، دشمن کی چال پر
مت بھولو، اسی اتحاد پر ہمیں ملی تھی آزادی شام و سحر کے دام پر
اگر نہ بدلے، ہر فرد، ہر ادارہ
تو رہ جاۓ گا صرف ایک خاکہ، ایک قصہ، ایک خسارہ
 
نگین
قد آور آئینے ہمارا نام مسلماں، ادائیں کافر ہیں
حرام خور یہاں سارے لوگ ساغِر ہیں
یہاں وزارتِ عظمیٰ نشست بکتی ہے
جو ظاہراً تو بہت خوشگوار دِکھتی ہے
یہاں پہ جسم بکے، دل بکے، ضمیر بکے
وکیل و منصف و انصاف کیا، وزیر بکے
یہ وہ نگر ہے جہاں باپ بیچے بچوں کو
کہ بھیک مانگتے دیکھا ہے کتنی ماؤں کو
جو گھر میں آئے وہ مہمان بکتے دیکھے ہیں
کہ چند ٹکّوں پہ ایمان بکتے دیکھے ہیں
یہ وہ نگر ہے جہاں پر دیانتیں مفقود
فقط ہے مال بنانا عوام کا مقصود
جو حکمران ہیں بے شرم ہیں، یہ بے حس ہیں
سو محتسب بھی انہیں کے شریکِ مجلس ہیں
ادارے جو تھے وہ برباد ہوتے جاتے ہیں
نہیں ہے پیروی، ہم جن کا دن مناتے ہیں
سہولتیں تو یہاں کچھ نہیں میسر ہیں
بلوں پہ بل ہیں، یہاں حال سب کے ابتر ہیں
نہیں ہے گیس نہ بجلی نہ آب ملتا ہے
کریں جو شور تو روکھا جواب ملتا ہے
گرانیوں کا یہ عالم کہ لوگ مرنے لگے
کہ گھاٹیوں میں سبھی موت کی اترنے لگے
ہر ایک چہرے پہ زردی مَلی ملے گی یہاں
کلی بہار کی لگتا نہیں کھلے گی یہاں
وہ دیکھ ملک میں افلاس سر اٹھائے ہوئے
کہ ابر ظلم کے ہر سمت دیکھ چھائے ہوئے
یہ لوگ بھوک سے مجبور خود کشی پر ہیں
کہ دنگ ایسے میں حاکم کی بے حسی پر ہیں
یہ ملک جیسے کہیں پر پڑا ہے لوٹ کا مال
کسی کو روک سکے کب کسی میں ایسی مجال
سو لوٹنے میں لگا ہے یہاں پہ ہر کوئی
یہاں سے سکھ تو لیا سب نے بھوک ہے بوئی
بڑے نے چھوٹے کو محکوم کر کے رکھا تھا
نتیجہ دیکھ لیا سب نے یہ تعاصب کا
ہمارے لہجوں میں تلخی کا ذمہ دار ہے کون؟
امیرِ شہر نہیں ہے تو داغدار ہے کون؟
گلی گلی میں جو بکھرے ہوئے یہ لاشے ہیں
غلیظ چہرے پہ حاکم کے ہی طمانچے ہیں
بھریں یہ جیب، رعایا کو صرف ٹھینگا ہے
نظام سارا یہ آنکھوں سے گویا بھینگا ہے
ہوئے جو بعد میں آزاد سب عروج پہ ہیں
یہاں پہ دوش ہیں، الزام ایک دوج پہ ہیں
کوئی بھی کام یہاں سود بن نہیں ہوتا
جو ہوتا قائدِ اعظم تو آبگیں ہوتا
عدالتوں میں جو انصاف بکتا آیا ہے
یہ کام قائدِ اعظم کے زیرِ سایہ ہے
معالجوں کی طرف دیکھتے ہیں، روتے ہیں
یہ رقمیں لے کے بھی نیّا فقط ڈبوتے ہیں
اسی طرح سے ہو استاد یا کہ سوداگر
سبھی کے سب ہیں یہ جلّاد سارے فتنہ گر
ہو مولوی کہ ہو رنگ ساز اور زلف تراش
کہ پانیوں پہ ابھر آئے جیسے کوئی لاش
اگر تو دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے
دکان دار میں ایمان پایا جاتا ہے
وگرنہ زہر ہے بکتا بنامِ دودھ یہاں
کہ پی کے جسکو رہے گا کہیں نہ نام و نشاں
مٹھاس پھل میں بھریں لوگ کس سلیقے سے
کریں نہ ایسا تو یہ پھل ہیں پھیکے پھیکے سے
برادہ مرچ میں، پتی میں ڈالتے ہیں خون
بنا کے مال یہ جائیں گے جیسے دیرہ دون
یہ زلزلے کہ ہوں طوفان بے سبب تو نہیں
یہ سوچنا ہے کہ ناراض ہم سے ربّ تو نہیں
صحافیوں کی یہ فوجیں ہیں یا فسانہ نگار
یہ پتر کار یہ شاعر ادیب و شاہ سوار
کسی کو اپنے فرائض کا کچھ نہیں احساس
نہیں ہے چھوٹوں پہ شفقت، سفید ریش کا پاس
لگا ہے ہر کوئی اپنی دکاں بڑھانے میں
سپاہی فوج میں، پولیس اپنے تھانے میں
کرو گے کب تلک اس بات سے نظر پوشی
رہا نہ ملک تو ٹھہراؤ گے کسے دوشی
ابھی بھی وقت ہے خود اپنا احتساب کریں
کہ پورا ملک کی شادابیوں کا خواب کریں
رشیدؔ اپنا بھی کچھ احتساب ہے کہ نہیں؟
ذرا گناہ سے ہی اجتناب ہے کہ نہیں؟
رشید حسرت
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets