افکار کے آئینے میں ذرا عکس تو دیکھو
ڈوبا ہے جو خوف میں وہ شخص تو دیکھو
ہوتی ہے محسوس موت کی لذت پھر کیسی
بجھتی ہوئی شمع کا ذرا رقص تو دیکھو
آنے دو ہوائیں تھوڑے کھولو یہ دریچے
دم گھٹتا ہے میرا بلا کا حبس تو دیکھو
لگ جاتے ہیں الزام کئی مجھ پے روزانہ
بن جاتا ہوں میں بت میرا ظرف تو دیکھو
ہو جائے گی زندہ پھر میرے فکر کی مورت
بکھرے ہوئے صفحوں پے ذرا لفظ تو دیکھو
کرتے ہیں سرشام ہم یادوں سے کنارہ
پگھلے ناں کہیں وجود میرا ضبط تو دیکھو