ان کی ہر بات ہی اردو میں سند ہے حد ہے
میرا لکھا ہوا ہر لفظ ہی رد ہے حد ہے
نذر تشکیک نہ کر پاک نگاہی کو مری
تجھ سے ملنا بھی کوئی خواہش بد ہے حد ہے
ہر نئے پنچھی کو اڑنے نہیں دیتی دنیا
ہر کسی دل میں بھرا کینہ و کد ہے حد ہے
مجھ کو دیکھا جو سر بزم تو منہ پھیر لیا
اپنے وعدوں سے یہ اعراض عمد ہے حد ہے
پہلے خود ہی مرے خوابوں کو سبوتاژ کیا
اب ضرورت ہے مری اور اشد ہے حد ہے
یوں تو احباب کی تعداد زیادہ ہے مگر
اتنی مشکل میں رسد ہے نہ مدد ہے حد ہے
قیس کے در کا میں سجادہ نشیں ہوں لیکن
لوگ کہتے ہیں کہ تو اہل خرد ہے حد ہے