اَیس واری تاں الیکشن میرا محلے دار وی لَڑیا ہے
بَس ۲۰ وَرے سکُولے جا کر دَھا جماعتیں پَڑھیا ہے
اَمب مِلا ہے نشان اُس کو اور ہیں ووٹ ندارد
یُوں لگتاہے جیسے وہ بس اَمب لَین لئی کَھڑیا ہے
بَلّے بَلّے ہو جاؤو گی الیکشن گر وہ جیت گیا
قرضہ لَتھ جاؤو گا سارا جِنّا مرضی چَڑھیا ہے
اَ گے پِچھے کوئی نئیں اُسکا گُم ہے اِن ہی سوچوں میں
ایک اَبّے کا ایک امّاں کا تِیجا ووٹ کِس کا پَڑیا ہے
پُوچھا اِسم شریف تو بولا محلہ ہے صدیق کالونی
اِس سے یہ اندازہ کر لَو کِنّا زیادہ پَڑھیا ہے
پُت ہوؤے شریفاں دا یا حافظ ہون اَبّا جی
بدنام ٹَبّر ہو جاتا ہے سیاست میں جو وَڑیا ہے
جعفرؔ لوٹا صاحب ذات ہے اُسکی، لوٹا رہیگا ہر دَم
فَیدہ اپنا لیکن مُلکی مُفاد کا بہانہ کڑھیا ہے