اُمیدِ جگنو چمک کر اپنی ہی راہ کے راہی ہوتے
فیل کو کنکریاں وار تو پرندے بھی سپاہی ہوتے
لفظ کاغذ پہ رہتے دیکھنے میں قلمِ سیاہی ہوتے
دشتِ تنہائی میں اکیلے ہم سفر ہم راہی ہوتے
موتیوں کے بیوپار میں کیوں نہ اب ماہی ہوتے
خوشیاں جینے کو کم پڑیں کیوں نہ عید سہ ماہی ہوتے